• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وقت نکلنے کے خوف سے امام سے پہلے سلام پھیرنا

استفتاء

محترم مفتی صاحب! اس مسئلہ کا جواب مرحمت فرمائیں کہ ہم چند ساتھیوں نے فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کی، جبکہ وقت بہت قلیل تھا، پھر قعدہ میں تشہد پڑھنے کے بعد میں نے اور چند ساتھیوں نے وقت نکلنے کے خوف سے امام سے پہلے ہی سلام پھیر دیا۔ واضح رہے کہ جب امام صاحب نے سلام پھیرا تو اس وقت سورج طلوع ہو چکا تھا۔ تو اب پوچھنا یہ ہے کہ ہم میں سے کس کی نماز ہوئی اور کس کی نہیں ہوئی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں جن لوگوں نے سورج طلوع ہونے سے پہلے سلام پھیر لیا ان کی نماز ہو گئی۔

2۔ اور جن لوگوں نے سورج نکلنے کے بعد سلام پھیرا، صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک ان کی  نماز بھی ہو گئی۔ البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان کی نماز فاسد ہو گئی۔ اگرچہ صاحبین رحمہما اللہ کا قول راجح ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ ’’إذا قلت هذا أو فعلت هذا فقد تمت صلاتك‘‘  (رواه أبو داؤد في باب التشهد: 1/ 146) لیکن ایک تو اس وجہ سے کہ معاملہ عبادت کا ہے اور عبادت میں اس قول کو لینا چاہیے کہ جس کی رُو سے بغیر کسی اختلاف کے نماز ہو جائے اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ خود صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بھی اس صورت میں نماز ہو جانے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ فرض ذمے سے ساقط ہو گیا، ورنہ کراہت (اور واجب الاعادہ ہونے) کا صاحبین رحمہما اللہ بھی کہتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں نے سورج نکلنے کے بعد سلام پھیرا انہیں اپنی نماز لوٹا لینی چاہیے۔

حاشيۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (311) میں ہے:

و كره سلام المقتدي بعد تشهد الإمام بوجود فرض القعدة قبل سلامه، أي تحريماً للنهي عن الاختلاف على الإمام إلا أن يكون القيام لضرورة صون صلاته عن الفساد كخوف حدث لو انتظر السلام و خروج وقت فجر … فلا يكره حينئذ أن يقوم بعد القعود قدر التشهد قبل السلام.

و في منحة الخالق على هامش البحر الرائق (1/ 659):

و هو أن الأصل في هذه المسائل أن فعل المصلي الذي يفسد الصلاة بوجوده فيها قبل الجلوس إذا وجد بعد الجلوس الأخير لا يفسدها بإجماع أصحابنا مثل الكلام و الحدث العمد و القهقهة و أما ما ليس من فعل المصلي بل هو عارض سماوي إذا اعترض يكون مفسدا بوجوده في أثنائها فقد اختلفوا في بطلانها به إذا وجد بعد القعود الأخير فعنده تبطل و عندهما لا، ثم حقق أن الخلاف مبني على افتراض الخروج بالصنع و عدمه و أيد كلام البردعي الآتي بما لا مزيد عليه، و أن الاحتياط في صحة العبادات أصل أصيل و ليس ذلك إلا بقول الإمام الأعظم إنما تبطل فالأخذ بقوله أولى لتبرأ ذمة المكلف بيقين.

عمدۃ الفقہ (2/ 241) میں ہے:

’’اور اگر وہ مخالف نماز فعل قعدہ اخیرہ میں بقدر تشہد بیٹھنے کے بعد واقع ہو تو بارہ مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی اور بنا اس پر جائز نہیں ہو گی، کیونکہ جس روایت میں امام صاحب کے نزدیک اپنے فعل سے نمازی کا نماز سے باہر آنا فرض ہے اس کے مطابق ترک فرض ہوا اور جس روایت میں خروج بفعل نماز فرض نہیں ہے تو اس وجہ سے فاسد ہو جائے گی کہ فرض میں تغیر آگیا، مثلاً تیمم والے نے بعد قعدہ اخیرہ پانی پر قدرت پائی تو پہلے تیمم فرض تھا، اب متغیر ہو کر وضو فرض ہو گیا۔ اور صاحبین کے نزدیک اس کی نماز درست ہے (یعنی اس کو اس پر بنا کر کے پوری کرنا جائز ہے، اور اگر بناء نہ کرے تب بھی اس کی نماز فرض کے اعتبار سے پوری ہو گئی، لیکن چونکہ بوجہ ترکِ سلام کے جو کہ واجب ہے اعادہ واجب ہو گا: مؤلف) صاحبین کے قول کو ترجیح دی گئی ہے، لیکن احتیاط امام صاحب کے قول میں ہے کہ نماز فاسد ہو جائے گی۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved