• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت کے متعلق مختلف سوالات

استفتاء

میری ملکیت میں ایک مکان تین مرلے واقع الحافظ ٹاؤن 80 فٹ روڈ پر ہے۔

1۔شریعت میں ملکیت کے کیا احکام ہیں؟

2۔نافرمان،جھگڑنے والی اور فرمانبردار، خدمت کرنے والی اولاد کے بارے میں شریعت کے کیا احکامات ہیں؟ مثلا یہ کہنا کہ میں نے بچیوں کی تعلیم پر اتنا خرچ کیا وغیرہ وغیرہ یا یہ کہ میری کمائی پر پلتے رہے وغیرہ۔ بعض بیٹے یہ الفاظ کہتے ہیں۔اس بارے میں شریعت میں کیا احکامات ہیں؟

3۔باپ زندگی میں وراثت کی تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ آیا یہ تقسیم وراثت کہلائے گی یا ہبہ؟

4۔باپ کسی کو کم دے یا کسی کو زیادہ یا کسی کو کچھ بھی نہ دے، اس بارے میں کیا احکامات ہیں؟

5۔وراثت کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہے؟

تفصیلات: میرے سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیوی حیات ہے۔ پانچ بیٹے شادی شدہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں غیر شادی شدہ ہیں۔

(1) بڑا بیٹا *** (دو بیٹیاں ایک بیٹا، بیوی فوت شدہ)

(2)*** (دو بالغ بچیاں٬ کرائے پر رہتا ہے)

(3)*** (غیر شادی شدہ، عادل، ماں باپ اور تین بچیوں کی کفالت عمران کے ذمے ہے۔ *** اور*** ملکیت والے مکان میں رہائش پذیر ہیں اور ماں باپ اور تین بچیاں بھی ان کی زیر کفالت ہیں)

(4)*** (شادی شدہ ملائشیا میں مقیم ہے۔ وہیں اس نے شادی کی البتہ بے اولاد ہے)

(5)*** (غیر شادی شدہ)

(6)*** (بیٹی)

(7)*** (شادی شدہ،  ایک چھوٹی بچی، کرائے پر رہتا ہے)

(8)*** (شادی شدہ، ایک ڈیڑھ سال کا بچہ، کرائے پر رہتا ہے)

(9)***

(10)***

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)شرعی اعتبار سے جو چیز جس کی ملک ہو وہ اس میں ہر طرح کے تصرف کرنے میں خود مختار ہوتا ہے ۔کوئی دوسرا  اس سے  نہ تو مطالبہ کر سکتا ہے اور نہ  ہی کوئی اس کو بیچ  سکتا ہے۔

(2)نافرمان اولاد  شریعت کی نظر میں گناہگار او قابلِ مذمت ہے، جبکہ فرمانبردار اولاد شریعت کی نظر میں اچھی اور قابلِ تعریف ہے۔

(3) والد کا زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا وراثت نہیں ہبہ کہلاتا ہے۔

(4)  اپنی زندگی میں والد کو اپنی تمام اولاد میں جائیداد برابر تقسیم کرنی چاہیے   اگر  والد کا معاشرے میں  دینی تشخص ہے اور کچھ بیٹے  دینی اعتبار    سے بے عمل ہیں  جو والد کے لیے  عار کا سبب ہیں  یا بعض  والد  کی جائز امور  میں   بغیر کسی شرعی  عذر کے فرمانبرداری نہیں کرتے تو والد کو اختیار ہے کہ وہ نافرمان بیٹوں کو جائیداد  میں سے کم  حصہ دے یا بلکل  محروم کردے۔

(5) مذکورہ صورت میں آپ کے فوت ہونے کے بعد  آپ کی کل جائیداد کو 136 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا  جن میں سے آپ کی بیوی کو  17 حصے(12.5فیصد)  بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو 14 حصے(10.29فیصد فی کس) اور بیٹیوں میں سے  ہر  بیٹی کو 7 حصے(5.147 فیصد فی کس) ملیں گے ۔

صورت تقسیم درج ذیل ہے:

8×17=136

بیوی7بیٹے3بیٹیاں
ثمنعصبہ
1×177×17
17119
1714+14+14+14+14+14+147+7+7

مسلم شریف(رقم الحدیث:88) میں ہے:

عن انس بن مالک  رضی الله عنه قال: ذکر رسول الله صلی الله  عليه  وسلم  الکبائر او سئل عن الکبائر فقال: الشرک بالله وقتل النفس وعقوق الوالدین

فتاوی شامی(8/583) میں ہے:

وفي الخانية: لا بأس ‌بتفضيل ‌بعض ‌الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى

فتاوی شامی(4/444) میں ہے:

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل”.

بحر الرائق (7/288) میں ہے:

یکره تفضیل بعض الأولاد علی البعض فی الهبة حالة الصحة  إلا لزیادة  فضل له  فی الدین ، وإن وهب ماله کله  لواحد جاز قضاء وهو آثم

بہشتی زیور (774) میں ہے:

سوم۔ جو امر شرعانہ واحب ہو اور نہ ممنوع ہو بلکہ مباح ہو بلکہ خواہ مستحب  ہی ہو اور ماں باپ اسکے کرنے یانہ کرنے کو کہیں تو  اس میں تفصیل ہے ۔ دیکھنا چاہیئے کہ اس امر کی اس شخص کو ایسی ضرورت ہے کہ بدون اس   کے تکلیف ہوگی۔ مثلا غریب آدمی ہے۔ پاس پیسہ نہیں بستی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں مگرماں  باپ نہیں جانے دیتے۔ یا یہ کہ  اس شخص کو ایسی ضرورت نہیں ۔ اگر اس درجہ کی ضرورت ہے تو اس میں ماں باپ کی اطاعت ضروری نہیں۔ اور اگر اس درجہ  ضرورت نہیں تو پھر دیکھنا چاہیئے کہ اس کام  کرنے میں کوئی خطرہ  یا اندیشہ ہلاک یا مرض کا ہے یا نہیں اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس شخص کے اس کام میں مشغول ہو جانے سے بوجہ کوئی خادم و سامان نہ ہونے کے خود ان کے تکلیف اُٹھانے کا احتمال قوی ہے یا نہیں، پس اگر اس کام میں خطرہ ہے یا اسکے غائب ہو جانے سے ان کو بوجہ بے سرو سامانی تکلیف ہوگی تب تو اُن کی مخالفت جائز نہیں مثلا غیر واجب لڑائی میں جاتا ہے یاسمندرکا سفر کرتا ہے یا پھرکوئی اُن کا خبرگیراں نہ رہے گا اور اسکے پاس اتنا مال نہیں جں سے انتظام خادم ونفقہ کافیہ کا کرجاتے اوروہ کام اورسفر بھی ضروری نہیں تواس حالت میں ان کی اطاعت واجب ہوگی ۔اور اگردونوں باتوں میں سے کوئی بات نہیں یعنی نہ  اس کام یا سفر میں اس کو کوئی خطرہ ہے اور  ان کی مشقت  و  تکلیف ظاہری کا کوئی احتمال ہے تو بلا ضرورت بھی وہ کام یا سفر باوجود ان کی ممانعت کے جائز ہے گو مستحب یہی ہے  کہ اس و قت بھی اطاعت کرے اور اس کلیہ سے ان فروع کا بھی حکم معلوم ہوگیا کہ مثلا وہ کہیں اپنی بی بی کو بلاوجہ  معتد بہ طلاق دے دے تو اطاعت واجب نہیں، وحديث ابن عمر يحمل على الاستحباب أو على ان امر عمر كان من سبب صحیح اور مثلا وہ کہیں کہ تمام کمائی اپنی  ہم کو دیا کرو  تو  اس میں بھی اطاعت واجب نہیں اور اگروہ اس چیز پر جبر کریں گے تو گنہگار ہوں گے،  وحديث” انت ومالك لا بيك” محمول على الاحتیاج  كيف و قد قال  النبي صلى الله عليه واله  وسلم   لا يحل مال امراء الابطيب نفس منه  اوراگروہ حاجت ضروریہ  سے زائد  بلا اذن لیں گے تو وہ  ان کےذ مہ دین ہو گا جس کا مطالبہ دنیامیں بھی ہو سکتا ہے۔ اگر یہاں نہ  دیں گے قیامت میں دنیا پڑے گا۔ فقہاء کی تصریح اس کے لئے کافی ہے وہ اسکے معانی کوخوب سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب کہ حدیث حاکم میں بھی "اذا احتجتم "کی قید مصرح ہے۔ واللہ اعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

فتوی نمبر:30/350                        کتبہ:   زین العابدین

تاریخ:09جمادی الثانی 1445ھ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved