- رابطہ: 3082-411-300 (92)+
- ای میل: ifta4u@yahoo.com
- فتوی نمبر: 27-125
- تاریخ: اگست 16, 2024
- عنوانات: مالی معاملات, وراثت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں کہ ** صاحب مرحوم جنکا انتقال 2013ء کو ہوا۔ اس کے بعد ان کے وارثوں میں تین بیٹے: **، **،**اور تین ہی بیٹیاں:**،**، **۔ اور**صاحب مرحوم کی ایک بیوہ صالحہ زندہ تھے۔ اس کے بعد** صاحب مرحوم کا درمیانہ بیٹا **2020ء میں وفات پا گیا جو شادی شدہ نہیں تھا۔ اس کے بعد طاہر صاحب مرحوم کے بڑے بیٹے ** 2022ء کو وفات پاگئے جن کا ایک بیٹا ** اور دو بیٹیاں: **، ** اور ایک بیوہ فائزہ زندہ ہیں۔ اب جو زندہ لوگ موجود ہیں وہ یہ ہے کہ طاہر صاحب مرحوم کا ایک بیٹا ** اور تین بیٹیاں اور ایک بیوہ صالحہ زندہ ہیں اور **صاحب کا بڑا بیٹا ** جن کا انتقال 2022ء کو ہوا، ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور ایک بیوہ زندہ ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
اب**صاحب مرحوم کے ترکے میں سے ان کے پاس دو گھر ہیں ایک پانچ مرلے کا اور دوسرا تین مرلے کا، اب ان میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا ؟ براہِ کرم شرعی حکم کے مطابق تحریر فرمادیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں** صاحب مرحوم کے کل ترکہ کے 5,1,84 حصے کیے جائیں گے جن کی تقسیم مندرجہ ذیل طریقہ سے کی جائے گی:
نام ورثاء | شرعی حصہ | فیصد |
** | 1024 | 19.75% |
** | 1248 | 24.07% |
** | 624 | 12.03% |
** | 624 | 12.03% |
** | 624 | 12.03% |
** | 156 | 3% |
** | 442 | 8.52% |
** | 221 | 4.26% |
** | 221 | 4.26% |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved