- فتوی نمبر: 4-354
- تاریخ: 11 فروری 2012
- عنوانات: مالی معاملات > رہن و گروی
استفتاء
اگر کسی عورت کے والد آج سے چودہ سال پہلے وفات پاگئے ہوں اور ورثاء میں سےکوئی ایک وارث یا دو وارث رہائش پذیر ہو ں اس وراثتی جائیداد پر جو کہ والد صاحب نے اپنے ترکہ میں چھوڑی ہو، اور اب جب جائیداد چودہ سال بعد تقسیم ہو رہی ہے یعنی ورثاء کو ان کا شرعی حصہ بشکل نقد رقم ادا کیا جارہا ہے، تو کیا اس وارث سے جو کہ پچھلے چودہ سال سے اس جائیداد پر رہائش پذیر ہے شرعی حصے کے علاوہ کسی قسم کا تقاضا کیا جاسکتا ہے ( یعنی اس سے کہا جائے کہ وہ چونکہ عرصہ چودہ سال سے اس مکان پر رہائش پذیر رہا ہے اس لیے اس مکان کا کرایہ بھی بطور حصہ ادا کرے۔)
نوٹ: وفات کے وقت تمام ورثاء بالغ تھے کوئی نابالغ نہیں تھا۔ لیکن تین سال قبل ایک وارث ( بیٹے کا انتقال ہوا ہے۔ انتقال کے وقت اس کے ورثاء میں ایک بچہ اور ایک بچی اور ایک بیوی تھی۔ بچہ اور بچی دونوں وفات کے وقت نابالغ تھے۔ پھر بیٹی ایک سال بعد بالغ ہوگئی تھی اور بچہ تین سال بعد۔ چنانچہ بچے نے نابالغی کی حالت میں تین سال اور بچی نے ایک سال گذارا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں رہائش پذیر رہنے والے وارث سے دیگر ورثاء ( کرائے کی مد میں ) اضافی رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتے، البتہ تین سال قبل فوت ہونے والے وارث کے بچے اور بچی کو ان کی نابالغی کی مدت کا اپنے حصے کے بقدر اضافی معاوضہ دینا ضروری ہوگا۔ واضح رہے کہ اس شریک کا مکان میں رہنا بطور اجارہ کے نہیں تھا کہ جس پر اجرت معین یا اجرت مثل آتی ۔ بلکہ یہ سکونت یا تو (خاموش اجازت کی وجہ سے ) اباحت ہے ، یا غصب ہے اور غصب کے منافع کا ( سوائے چند صورتوں کے ) ضمان نہیں ہوتا۔ جیسا کہ شامی میں ہے:
و سيأتي في الفصل متناً أن منافع الغصب غير مضمونة إلا أن يكون ( المغصوب ) وقفاً أو مال يتيم أو معداً للاستغلال.
أو معد للاستغلال أي أعده صاحبه للاستغلال بأن بناه لذلك أو اشتراه لذلك … وقيل أو آجره ثلاث سنين على الولاء. ( شامی: 2/ 206، 207 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved