• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وارث کے لیے وصیت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1۔میرا سوال یہ ہے کہ میری ایک ہی بیٹی ہے، میں اپنا مکان اور جو کچھ اس میں میری ملکیت میں ہےمثلازیور، کپڑا، برتن، غرض ہر وہ چیز جو مکان میں موجود ہے میرے مرنے کے بعد مکمل طور پر میری بیٹی کی ہیں، اس کی مالک تصور کی جائے گئی،اس مکان میں میرے ساتھ میرے شوہر بھی موجود ہیں اور بیٹی داماد بھی موجود ہیں۔ کیا میرا اس طرح وصیت کرنا شرعی طور پر صحیح ہے کہ نہیں ؟آگاہ فرمائیں

2۔میرا ایک عدد گودام ہے جس کا معقول کرایا مجھ کو آتا ہے، میری خواہش ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا گودام فروخت کرکے اس کی رقم کسی بھی دینی ادارے میں دے دی جائے جبکہ ایک تجویز یہ ہے کہ میرے مرنے کے بعد اس کا کرایا کا کچھ حصہ میرے شوہر کو دیا جائے اور کچھ حصہ دینی ادارے کو دیا جائے اور میرے شوہر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس گودام کو فروخت کرکے مکمل رقم کسی بھی دینی ادارے میں صرف کردی جائے۔ میرے لئے شرعا کس طرح موزوں رہے گاتاکہ دنیا وآخرت کامکمل اجر مل سکے۔

نوٹ :مکان اور گودام میری ہی ملکیت ہے۔

مزید وضاحت:میرے والدین وفات پاچکے ہیں اوربہن بھائیوں میں سے4بھائی فوت ہوچکےہیں (جن کی اولاد موجودہے)جبکہ میرے 3بھائی اور3تین بہنیں حیات ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.آپ کی بیٹی چونکہ آپ کی شرعی وارث ہے اور شریعت کی رو سے وارث کے لیے کی گئی وصیت معتبر نہیں۔ البتہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے شوہر اوردیگربھائی بہن بھی اس وصیت کو برقرار رکھیں تو پھر ٹھیک ہے.

2.مذکورہ تجویز وں میں سے آپ جس تجویز پر چاہیں عمل کرسکتی ہیں، دونوں اجر سے خالی نہیں، تاہم یہ صورت بھی وصیت کی ہے، لہذا شوہرکے حق میں یہ وصیت آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیٹی اوردیگربہن بھائیوں کی رضامندی پر موقوف ہوگی اور دینی ادارے کے حق میں اگر یہ وصیت آپ کے کل ترکے کے ایک تہائی3/1تک ہو تو بغیر کسی شرط کے معتبر ہو گی اور اگر زائد ہو تو زائد مقدار آپ کی وفات کے بعد آپ کے شوہربھائی،بہنوں اور آپ کی بیٹی کی اجازت پر موقوف ہوگی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved