• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وارث کے لیے وصیت اور تقسیم وراثت سے متعلق چند سوالات

استفتاء

*** کا بیان:

چند امور کے بارے میں شرعی رہنمائی درکار ہے:

1۔میرے والد حاجی*** مؤرخہ2021-06-21کو انتقال کرگئے ہیں، جن کی ٹوٹل  جگہیں 3 ہیں، نمبر 1: 5 مرلہ، نمبر 2: 10 مرلہ،نمبر 3:  8.5مرلہ ۔ کل وارثان گیارہ ہیں، ایک والدہ اور اولاد میں ہم تین بھائی، سات بہنیں۔ ان کے علاوہ وارثان نہیں ہیں، ***مرحوم کے والدین پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔ میرے والد صاحب  وفات سے ایک دن  پہلے انتہائی بیماری کی حالت میں کچھ تحریر فرما گئے تھے  جو درج ذیل ہے:

’’(1)***مکان 8مرلہ *** کا ہے،(2)جس مکان میں ***رہتا ہے وہ ***کا ہے،(3) جس مکان میں *** رہتا ہے وہ *** کا ہے،(4)دو دو لاکھ بہنوں کو دینا ہے جوکہ *** کے ذمہ ہے ،*** اپنے پاس سے دے گا۔‘‘

پہلے اس بات پر  دس وارثان بمعہ والدہ رضامند تھے اب کچھ وارثان رضامند ہیں اور کچھ نہیں ،اس کی اب کیا حیثیت ہے ؟اور کیا اس پر عمل  ہوسکتا ہے کسی صورت میں اگر کوئی ایک راضی نہ ہو ؟۔

2۔5 مرلہ کی جگہ میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے، جس پر دو بھائی( *** اور *** )اور ایک والدہ رہائش پذیرہیں، والدہ کا کھانا ، پینا اور تمام ذمہ داری *** کی  چاہت اور والدہ کی چاہت سے *** پر ہے، اب دو بھائیوں کا جھگڑا ہے ایک  کی چاہت ہے  کہ یہ پانچ مرلہ جگہ مجھے دیدی جائے اور مجھ سے پیسے لے لیے جائیں اور دوسرے کی بھی چاہت یہی ہے کہ یہ پانچ مرلہ جگہ مجھے دیدی جائے اور مجھ سے پیسے لے لیے جائیں جبکہ اس کا کھانا پینا بھی الگ ہے دونوں بھائیوں  میں اسی بات پر جھگڑا ہے ،کیاکسی کو کسی پر زیادہ حق ہے؟۔

3۔اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تمام بہنیں ،والدہ، اور ایک بھائی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے دونوں  بھائیوں کو اڑھائی اڑھائی مرلہ دیدی جائے ،کیا ایسا فیصلہ کرنا ٹھیک ہے ؟کیا ایسا کرنے پر کوئی بہن یا بھائی قصور وار یا گناہ گار ہے؟ (اڑھائی اڑھائی جو بھائیوں کو دی  جائے گی وہ باقی وارثان کو اس کے پیسے دیں گے) نیز اس 5 مرلہ جگہ کے ساتھ ایک مرلہ *** کے نام بمعہ رجسٹری ہے اب بھائی *** اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ  *** ایک مرلہ بھی وراثت میں شامل کرے مجھے تین مرلے دی جائے *** اس بات  پررضامند نہیں ہے کہ میری ذاتی جگہ وراثت میں شمار کی جائے کیا  *** کو اس بات  پرزور دینا ٹھیک ہے کہ اپنی جگہ وراثت میں شمار کرو، یا اس بات کا زور دینا کہ اس ایک مرلہ کے بدلے کوئی اور جگہ لے لی جائے، *** اس بات پر ہرگز رضامند نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضہ کیا ہے کہ سب وارثان کو کیا کرنا چاہیے، بھائی *** اس بات پر ہی رضامند ہے کہ مجھے تین مرلے ہی دی جائے اگر آپ لوگ مجھے تین مرلے نہیں دو گے تو ظالم اور گناہگار ہوگے آخرت میں اس کے ذمہ دار بھی ہوگے۔

4۔ماں کے نام پانچ مرلے جگہ ہے اس نے یہ جگہ ایک بیٹے (***) کو دیدی دوسرا بیٹا اس کا گواہ ہے۔ جو جگہ بیٹے کو دی وہ اس جگہ پر قابض بھی ہے۔ امی اور اس بیٹے کے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ ابو کی وراثت میں سے جو جگہ یا جو قیمت ملے گی وہ میں امی کو دوں گا۔ کیا امی کا ایسا کرنا  غلط ہے؟ کیا ماں کا باقی بیٹوں سے یا بیٹیوں سے پوچھنا بنتا تھا یا نہیں؟ کیا ماں کو اس بات کا مکمل حق حاصل ہےکہ وہ  اپنی جگہ  کا جو مرضی کرے  ؟، کیا کوئی بیٹا یا بیٹی اس بات پر اعتراض کرسکتا ہے کہ جگہ میں سے ہمارا  بھی حق تھا آپ کو وہ  تقسیم کرنی چاہیے تھی جوکہ ماں نے بیٹے کوباپ کی وراثت کے بدلے میں دیدی؟۔

5۔ اب ماں کے پاس جو پیسے آئیں گے یا جگہ آئے گی کیا کوئی بیٹا یا بیٹی ان پیسوں کو باپ کی وراثت میں  شامل کرنے پر زور دے سکتا ہے ایسا کرنا کیسا ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اس جگہ کو بیچ کر ظلم کیا یا اب اس کے پیسے وراثت میں شامل نہ کروگی تو آپ کا یہ فیصلہ غلط ہوگا تو کیا اس کا یہ کہنا ٹھیک ہوگا؟رہنمائی فرمائیں۔

6۔کیا باپ کی وراثت میں زندہ ماں کی جگہ کو شامل کیا جاسکتا ہے ؟کیا ماں پر اس کا زور دینا ٹھیک ہے؟ ایک بھائی کی طرف سے یا بہن کی طرف سے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ماں اپنی جگہ باپ کی وراثث کے ساتھ تقسیم کرے نہیں تو فیصلہ غلط ہوگا اور سب ظالم ہوں گے، جواز یہ دیا جاتا ہے  کہ یہ 5 مرلہ جگہ ابو جی نے امی کو دی تھی امی نے ذاتی پیسے سے نہیں خریدی تھی باپ کے پیسے سے خریدی تھی تو باپ کی وراثت میں شامل ہوگی جبکہ یہ پلاٹ والدنے والدہ کے نام پر خریدا تھا ، رجسٹری  بھی والدہ کے نام پر ہے اور والدہ حیات ہیں۔

ایک مرلہ پلاٹ کی رقم میں نے خود والد صاحب  کی وفات  کے بعد دی تھی میری چچا کے ساتھ لڑائی تھی اس لیے میں نے ان کے پاس جاکر رقم نہیں دی بلکہ بھائی نے دی تھی جو بعد میں میں نے قرض ادا کیا تھا۔ والد صاحب  نے اپنی ذات سے پیسے نہیں دئیے تھے۔ زندگی میں جو والد صاحب نے رقم دی تھی  وہ قرض لیکر دی تھی جو بعد میں میں نے خود ادا کی تھی، قرض عدنان (بہنوئی) سے لیا تھا۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ والدہ کے نام ٹیکس سے بچنے کے لیے والد صاحب نے پلاٹ نام لگوایا تھا یہ بھی جھوٹ  ہے  کیونکہ والدہ  کے نام پلاٹ 1990 کے آس پاس کیا تھا۔ میری والدہ ، والد  صاحب کے ساتھ کام کرتی تھیں تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ والد صاحب نے محض کاغذی طور پر والدہ کے نام پلاٹ کروایا تھا بلکہ واقعی ہی ان کی محنتوں کے بدلے ان کو گفٹ کیا تھا۔

باقی دونوں بھائیوں کو والد صاحب نے کاروبار کرکے دیا تھا اور  مجھے اپنے کاروبار میں شریک کرکے کہا تھا یہ تمہارا کاروبار ہے۔ اب اگر یہ کاروبار بھی وراثت میں چلا جائے تو میرے پاس کچھ نہیں بچتا۔  باقی دونوں بھائیوں کا کاروبار مجھ سے بہت زیادہ اچھا ہے، میں نے کاروبار پر قرض وغیرہ  اتارا، ساری محنت خود کی کوئی بھائی اس میں شریک نہ تھا دو بھائی اپنا اپنا کاروبار کرتے تھے، والدین میرے ساتھ رہے آخر تک اور والدہ ابھی بھی میرے ساتھ ہیں اور سارے کاروبار پر ابھی بھی قرض چل رہا ہے سب میں ہینڈل کررہا ہوں ۔ والد صاحب کی وفات کے وقت بھی کسی نے کاروبار میں وراثت کی بات نہیں کی تھی ڈیڑھ سال بعد اب یہ معاملہ اٹھا ہے۔

نیز جیسا کہ میں نے والد صاحب کے ساتھ سارے کام کی تفصیل لکھ دی ہے ان میں چند باتیں رہ گئی تھیں جو آپ کے علم میں لانا ضروری ہیں۔ ایک مرلہ جگہ کا میرے ساتھ تنازعہ بنایا ہوا ہے وہ جگہ والد صاحب کے سامنے انکم ٹیکس آفیسر وکیل *** ***کو سن 2019ء میں FBR کے کھاتوں میں میرے کاغذات میں ڈیکلیئر کر دی گئی تھی اور والد صاحب کے کہنے پر ہی کی گئی تھی اور کاروبار بھی سن 2019ء میں FBR کے کھاتوں میں ڈیکلیئر کر دیا گیا تھا جس کی تفصیلات میں کاروباری اماؤنٹ اور بطور مشینری اماؤنٹ شو کر دی گئی تھی جس کے پیپرز آپکو دے رہے ہیں اور ایک پیپر لف کر دیا گیا ہے۔ (انکم ٹیکس کے انسپکٹر کا بیان بھی ساتھ لف ہے)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے والد حاجی *** 20 جون 2021 کو وفات پاگئے ان کے وارثان گیارہ ہیں۔ ایک بیوی، تین بیٹے اور سات بیٹیاں۔ ہمارے والد صاحب کے پاس 3 جگہیں ہیں 6 مرلہ(جس کو بھائی *** 5 مرلے  بتلا رہا ہے)، ساڑھے 8مرلہ اور 10 مرلہ ہیں۔ 6 مرلے کا آبائی گھر جس میں والد، والدہ اور دو بیٹے ***، *** رہائش پذیر ہیں۔ 6 مرلہ آبائی گھر میں 1 مرلہ جگہ والد صاحب کے بھائی فردوس احمد کی تھی۔ جس پر قبضہ شروع دن سے موت تک والد صاحب کا ہی رہا۔ چند سال پہلے وہ 1 مرلہ جگہ والد صاحب نے اپنے بھائی فردوس احمد سے خرید لی تھی۔ جس کے گواہ والد صاحب، والد صاحب کے بھائی (فردوس احمد)، فردوس احمد برادر نسبتی *** اشرف اور بڑا بیٹا *** ہیں۔ اس 1 مرلے کا بیعانہ والد صاحب نے اپنے بڑے بیٹے *** کے ہاتھ سے دلوایا۔ اب چھوٹا بھائی *** کہتا ہے کہ یہ 1 مرلہ جگہ میں نے خریدی ہے جس کی رجسٹری میرے نام ہے۔ والد صاحب نے کسی مصلحت کے تحت یہ جگہ *** کے نام کروائی یا نہیں کروائی۔ اس کا مجھ کو علم نہیں۔ اس جگہ پر موت تک قبضہ والد صاحب کا ہی رہا۔ 6 مرلہ آبائی گھر میں اوپر رہائش اور نیچے والد صاحب کا کارخانہ شروع دن سے ہی ہے۔ 1990 سے لے کر 2010ء تک بڑے بیٹے *** نے والد صاحب کے ساتھ کام کیا۔ اس دوران بہت سارے اوزار اور تمام پراپرٹی خریدیں اور اس عرصے میں 5 بیٹیوں اور 2 بیٹوں کی شادی کروائی۔ براہ مہربانی 1 مرلہ جگہ اور اوزاروں کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اوزاروں کی مالیت 1 کروڑ سے زائد ہے۔ تمام بیٹیاں پوچھ رہی ہیں کہ اوزاروں میں ہمارا حصہ ہے یا نہیں؟

ان کے علاوہ والد صاحب نے دو جگہ (5+5 مرلے) خریدی تھیں اور ٹیکس سے بچنے کے لیے 5 مرلہ جگہ اپنی بیوی اور 5 مرلہ اپنے بڑے بیٹے *** کے نام کروائی تھی۔ جبکہ دونوں جگہوں پر قبضہ موت تک والد صاحب کا ہی رہا۔ چند سال پہلے جو جگہ *** کے نام تھی۔ والد صاحب نے اسے فروخت کر دیا اور جو جگہ والدہ کے نام تھی اس پر والد صاحب اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر اجتماعی کام  کرتے رہے۔ سارا کام والد صاحب کا ہی تھا بلکہ مرنے سے پہلے جب آپریشن کے لیے جانے لگے تب بھی تمام کاریگروں کو کام بتا کر گئے۔ جب کبھی کسی عزیز اقارب نے پوچھا یہ کام کس بیٹے کا ہے۔ تو والد صاحب نے ہر مرتبہ جواب دیا یہ کسی بیٹے کا نہیں بلکہ یہ سب میرا ہے۔ والدہ سے پوچھا یہ 5 مرلہ جگہ آپ کے نام کیسے ہوئی۔ تو والدہ نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ،  تمہارے والد صاحب آئے اور مجھے رجسٹری دے کر کہا کہ یہ الماری میں رکھ لو۔ اب کیا والدہ وہ جگہ کسی ایک بچے کو دے سکتی ہےجبکہ تمام بچے اس جگہ سے اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ اور ایک بچے کو دینے سے باقی تمام اولاد کو تکلیف ہوتی ہے۔ براہ کرم اس پانچ مرلے جگہ کے متعلق میری والدہ کی راہنمائی فرمائیں۔ ہمارے والد صاحب کہتے تھے کہ میرے مخلص دوست بھائی عبد الحئی ہیں جس کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام معاملات اور دل کی ہر بات اور تمام مشورے کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنا مال ان کے مشورے سے خرچ کرتے۔ بھائی عبد الحئی کے ساتھ اللہ کے راستے میں اکٹھے جاتے اکثر رائے ونڈ بزرگوں کے پاس حاجی***صاحب،مولانا ***صاحب ،مولوی ***صاحب اور مولانا احسان صاحب کی خدمت کے لیے اکٹھے جاتے اور بھائی عبد الحئی صاحب کا کچھ وقت ڈاکٹر مفتی *** صاحب کی صحبت میں گزرا ڈاکٹر *** صاحب کو بھائی*** صاحب سے انس تھا۔ہوسکتا ہے ان کی رہنمائی سے آپ کی تحقیق میں معاونت سے تمام وارثان کے لیے اللہ پاک آسانی فرمائیں۔ہمارے والد نے کاروبار  شروع کیا ان  کے 3  بیٹے اور  7 بیٹیاں  ہیں، بڑے بیٹے *** نے اپنے والد کے ساتھ مل کر 23 سال کام کیا  تو جب بھی والد صاحب سے پوچھا گیا کہ یہ کام کس کا ہے؟ آپ کا یا بیٹوں کا ؟ تو والد صاحب نے سب کو کہا کہ یہ میرا کام ہے تو والد کے فوت ہونے کے بعد  سب بیٹیاں وعزیز واقارب نے کہا کہ یہ والد صاحب کا کام تھا اور *** بڑا بیٹا بھی یہی کہتا ہے کہ یہ  والد صاحب کا کام تھا تو اب کس کو کتنا حصہ ملے گا اور مرحوم کی بیوہ بھی زندہ ہیں۔

***کا بیان:

میں ***نے سن 1993ء یا سن 1994ء میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد والد صاحب کے ساتھ کام میں معاون ہوا جو کہ میں ابھی تک کا روبار کر رہا ہوں والد صاحب کا کام قبضے کا تھا اورجو کام مجھ سے کردار ہے تھے وہ آٹولائن جس میں سلف کپ اور سلف کپی اور ہارن شامل ہیں اس کام میں میرے ساتھ معاونت کیلئے خالو قاروق تھے ۔ والد صاحب اپنا قبضے کا کام کرتے تھے اور مجھ سے آٹو لائن کا کام کر وا تے تھے اسی دوران 2003 ء میں میری شادی طے ہوئی جہاں پر کام کرتے تھے وہ جگہ تعمیر نہ تھی محض خستہ حالت مٹی کی چھت پر ایک دو کمرے تعمیر تھے ۔ 2003ء میں مکان کی تعمیر کی تب بھی میں والد صاحب کے ساتھ کام میں تھا۔ میری شادی 2004ء میں ہوگئی -2008 تک والد صاحب نے میرے کام کی نگرانی کی اور زکواۃ ادا کی اور کروائی جس میں میری بیوی کے سونے کی زکواۃ بھی شامل ہے 2008ء کے بعد والد صاحب نے کام مجھے سونپ دیا تھا اس کے بعد اب تک اپنے کاروبار کی تمام ذمہ داریاں میں خود ادا کر رہا ہوں میں کاروبار والد صاحب نے 2008ء میں مجھے سونپ دیا تھا جب میری شادی ہوئی جہاں میں کام کر رہا ہوں میری رہائش کیلئے وہی جگہ تعمیر ہوئی اس کی تعمیر دو منزل تعمیر کیا جس میں بغیر پلستر کے کمرے شامل تھے مکان کچھ پلستر تھا اندر سے کچھ نہیں تھا ٹائل پھر تو بالکل بھی نہیں تھی دوسری منزل کی تعمیر میں دو کمرے اور ایک کچن شامل تھا شادی کے بعد کچھ عرصے تک مکان کی تعمیر میں کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا ۔ اس کے بعد کی تعمیر میں ٹائل پھر اور مکان کے فرنٹ کے کمرے خود تعمیر کروائے۔ ٹائل  پتھر کا خرچ اور مکان کے فرنٹ کے کمرے اور مکمل مکان کی نائل اور تیسری منزل میں نے خود تمیر کی جن کے اخراجات 45لاکھ کے قریب ہیں۔ میرا کام الگ ہونے کے بعد بھی بہنوں اور ایک بھائی کی شادی میرے والد صاحب کو جس طرح بھی تعاون درکار ہوا میں نے کیا والد صاحب نے جتنے بھی اخراجات میرے ذمے لگائے دو میں نے کئے اور کاروبار میں بھی والد صاحب اور چھوٹے بھائی کو جوتعاون درکار ہوا میں نے کیا ان کے علاوہ کچھ رقم اور سامان ایسا ہے جو والد صاحب نے ادھار کی شکل میں لیا جن کی رقم ساڑھے چھ لاکھ اس کے علاوہ سونے کی چوڑیاں شامل ہیں جن کا میں مطالبہ نہیں کرتا اور مکان کی تعمیر ٹائل پھر تیسری منزل والد صاحب سے پوچھ کر کی کیونکہ مجھے ڈر پڑ گیا تھا لوگوں کی باتوں کی وجہ سے لوگ کہنے لگے تھے کہ یہ چیر جو نگار ہے ہو تو مکان تمہارے نام ہے نہیں۔ اس وقت میں نے مستری مزدور لگائے ہوئے تھے ان کو چھٹی کروا کے والد صاحب کے پاس آگیا۔ میں نے والد صاحب سے سوال کیا کہ ابو جی مجھے باہر کے لوگ اور رشتہ دار کہتے ہیں کہ یہ جوتم ***پیسے لگا ر ہے ہو جبکہ مکان تمہارے نام نہیں جو تم پیے نگار ہے ہو یہ پیسے کسی زمرے میں نہیں ہیں ابو نے جواب دیا کہ تمہیں کیا پریشانی ہے مکان تمہار ہی رہے گا تمہاراہی ہے اور اس بات کا میری والدہ کو بھی علم تھا والدہ صاحب کے فوت ہونے کے بعد میں والدہ کے پاس گیا میں نے والدہ کو اس بات پر راضی کیا آپ کو پتہ ہے میں اس جگہ پر رہتا ہوں میرے اس جگہ پر پیسے لگے ہوئے ہیں یہ جگہ آپ میرے نام کردو میرے والد صاحب کی وراثت میں میرا جتنا حصہ بنتا ہے وہ میں آپ کو سارا دوں گا آپ کی بہت مہربانی ہوگی والدہ نے یہ مکان میرے نام کر دیا اس شرط پر کہ میرے والد صاحب کی وراثت میں سے جتنا حصہ نکلے گا میں آپ کا دوں گا۔

بہن ***کا مؤقف:

*** کے مؤقف میں نمبر 2 کا جواب :سوال نمبر 2 میں جو لکھا ہے کہ 5 مرلہ جگہ جس میں *** بھائی اور *** بھائی اور امی رہائش پذیر ہیں۔ وہ اصل میں 5 مرلہ نہیں ہے،6 مرلہ ہے۔ ایک مرلہ ابو جان نے بعد میں چچا فردوس سے خریدی تھی جس کے گواہ بڑا بھائی *** اورچچا فردوس ہیں ۔ ایک مرلہ جوخریدی تھی اس کی رقم بھی ابو نے اپنے ہاتھوں سے دی تھی۔ وہ 6 مرلہ میں سے *** کہتا ہے کہ ایک مرلہ میری ہے اور میں نے خریدی تھی ۔ *** کے نام کب ہوئی اور کیسے ہوئی اس کا ذکر ابو جان نے نہ ہی کبھی امی سے کیا اور نہ ہی کسی اولاد سے کیا ۔ اور بڑے بھائی *** نے کبھی 5مرلے کی فرمائش نہیں کی بلکہ وہ کہتے ہیں کہ 3،3 مرلے دونوں بھائی لے لیں اور ابو کی وفات کے بعد امی *** بھائی کے پاس نہیں بلکہ شروع سے ہی وہیں رہتی ہیں ۔ ہماری پیدائش بھی وہیں پرہوئی۔

سوال نمبر 3 کا جواب :سوال نمبر 3 میں بھائی *** نے لکھاہے کہ جھگڑا ختم کرنے کیلئے ڈھائی ڈھائی مرلے دے دی جائے ۔ جھوٹ ہے ۔ جبکہ صرف 6 بہنیں اور بڑا بھائی اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ دونوں بھائی تین تین مرلے لے لیں ۔ جو ایک مرلہ بھائی *** کے پاس بمعہ رجسٹری وہ ابو کی ہے۔ ابو جان نے وفات سے چند سال پہلے خریدی۔ ان چند سالوں میں ابو جان نے کبھی اس ایک مرلہ کا ذکر نہ امی سے کیا اور نہ ہی کسی اور اولاد سے ذکر کیا۔ اس ایک مرلہ کا ذکر ابو کی وفات کے دو مہینے کے بعد پتہ چلا۔ *** بھائی کہتا ہے کہ اس ایک مرلہ کا اسٹام پیپر ابو نے میرے نام کیا تھا پھر دو مہینے بعد پتہ چلتا ہے کہ ابو نے اس ایک مرلہ کی رجسٹری میرے نام کروائی تھی۔ اب یہ ایک مرلہ *** کے نام کب ہوئی اور کیسے ہوئی کسی کو کچھ نہیں پتا۔

سوال نمبر 4,5 کا جواب: اس میں جو لکھا ہے سراسر جھوٹ ہے ۔ ان جگہ کے علاوہ ابو کی دو جگہیں  اور تھیں ایک بڑے بھائی *** کے نام پر تھی جو کہ ضرورت پڑنے پر ابو جان نے بیچ دی تھی اور دوسری جگہ امی کے نام پرتھی جو ابو جان نے ٹیکس سے بچنے کیلئے امی کے نام کروائی تھی اور دو بھائی *** اور ***بھائی نے بہنوں کا حصہ ختم کرنے کیلئے سیاست کے ساتھ خاموشی سے ***بھائی کے نام کروالی۔ امی اور بھائی کے درمیان کیا طے ہوا؟ کچھ نہیں پتہ ۔ کبھی پتہ چلتا ہے کہ گفٹ کیا، کبھی پتہ چلتا ہے کہ جگہ کے بدلے دیا  کبھی پتہ چلتا ہے کہ وہ جگہ کے پیسے دے گا جبکہ وفات تک ابو کاہی قبضہ تھا ۔ والدہ اس میں رہائش پذیر نہیں ہے اور نہ ہی والدہ کا قبضہ ہے۔ جبکہ بڑا بھائی *** والدہ کو کہتا ہے کہ یہ وراثت ہے اس جگہ کوسب اولاد میں تقسیم کر دیں۔ بھائی *** کہتے ہیں کہ میں نے یہ جگہ وراثت پر نہیں چڑھانی پہلے بتاؤ کس بہن نے کس بھائی کو دینی ہے ۔ حلفا بیان دو اور کہتا ہے کہ کسی بھی صورت  میں تین مرلہ پر دیوار نہیں ہونے دونگا۔ رہنمائی فرمائیں! ابو جان کی وفات تک سارا کاروبار اور سارے اوزار والد صاحب کے تھے اور ساری جگہ پر قبضہ والد صاحب کا ہی رہا۔ جب بھی ابو سے کسی نے بھی پوچھا کہ کاروبار کس کا ہے تو ابو کا جواب ایک ہی تھا کہ سب کچھ میرا ہے میں نے کسی کو کچھ نہیں دیا۔ اوزاروں کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں!

بہن ***کا مؤقف:

سوال نمبر 1 کے متعلق جواب:

نہ ہم نے وصیت دیکھی نہ ہم اس کو مانتے ہیں۔

سوال نمبر3،2 کے  متعلق جواب:

بھائی *** جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ ساری بہنیں یہ چاہتی ہیں کہ بھائی *** اور بھائی *** 3،3 مرلے جگہ لے لیں۔ایک مرلہ کی جگہ بھائی *** کہہ رہے ہیں کہ میں نے خریدی جبکہ یہ جگہ والد صاحب نے خریدی جس کے گواہ بڑے بھائی *** اور چچا فردوس ہیں۔ایک مرلہ کی جگہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

سوال نمبر 6،5،4 کے متعلق جواب:

ان جگہوں کے علاوہ والد صاحب نے دو جگہیں  اور خریدیں، ٹیکس سے بچنے کے لیے ایک جگہ والدہ کے نام کروادی اور ایک جگہ بھائی *** کے نام کروادی۔ ضرورت پڑنے پر جو جگہ والد صاحب نے بھائی *** کےنام کی تھی وہ بیچ دی،دونوں جگہوں پر قبضہ والد صاحب کا ہی موت تک رہا، بھائی ***اور بھائی *** نے والدہ کو مجبور کرکے سیاست کے ساتھ بہنوں کا حصہ ختم کرنے کے لیے وہ جگہ بھائی ***کے نام کروادی۔ بھائی *** جھوٹ بول رہا ہے کہ  قبضہ والدہ کو دیدیا تھا، شروع  سے لیکر وفات تک  قبضہ والد صاحب کا ہی تھا۔ بھائی *** بہنوں کو دھمکی دے رہا ہے کہ تمہارا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے چاہے جس مرضی عدالت اور مفتی کے پاس جاؤ میں نے حصہ نہیں دینا۔

نوٹ: ہم تین بھائی اور سات بہنیں ہیں اور سب حیات ہیں۔ مفتی صاحب ان میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟

والدہ کا بیان:

میں یہ چاہتی ہوں کہ میرے بچے آپس میں پیار محبت اور اتفاق سے رہیں، ان کی آپس کی ناچاقیوں کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتی ہوں۔ میرے شوہر نے جو پلاٹ مجھے دیا تھا اس کے بارے میں کبھی ان سے یہ نہیں سنا تھا کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے میرے نام کروایا ہے، بلکہ کہتے تھے کہ کسی مشکل گھڑی میں تیرے کام آجائے گا۔ میرے نام رجسٹری بھی کروا دی تھی جس پر میرے انگوٹھے لگے ہیں۔ اور *** کے علاوہ باقی دو بیٹوں نے  اپنا کاروبار اپنے والد کی زندگی میں الگ کرلیا تھا جو انہیں دونوں کے پاس ہے۔ *** والد کے ساتھ کام کرتا رہا اور والد کی آخر عمر تک ساتھ ہی رہا، *** کا اپنا بھی کاروبار تھا لیکن اس نے بیچ کر والد والے کاروبار میں شامل کردیا تھا۔ والد کی وفات کے بعد بھی کاروبار *** ہی کے پاس رہا اور اسی نے اس کے لین دین کے سارے معاملات کیے اور کررہا ہے۔ لیکن اب اس کے بارے میں بھی بہن بھائی  آپس میں اختلاف کررہے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ جو شریعت کا حکم ہے وہ مل جائے، جس بچے کا جو حق ہے وہ اسے مل جائے۔ اللہ پاک سب کے دلوں کو نرم کردے۔

بیان حلفی از***:

میں مسمیٰ***ولدسید***ساکن ***کا رہائشی ہوں۔

میرے والد سید*** حاجی***صاحب کو انکم ٹیکس کے گواشوارا جات پر کرے دیا کرتے تھے ان کی وفات کے بعد میں نے 2006 میں ٹیکس گواشواراجات پر کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔

میں حلفاً تصدیق کرتا ہوں کہ حاجی ***صاحب نے خود بُلا کر 20-10-15 کو *** ولد حاجی*** کو انکم ٹیکس کی رجسٹریشن کروانے کا کہا، *** صاحب کے مکمل کاروباری لین دین کاروباری تمام اثاثہ جات تفصیل کے ساتھ تحریر کروائے جس میں انہوں  نے ایک عدد پراپرٹی مکان نمبر 22 گلی نمبر 9-c محل***رقبہ238 فِٹ مالیت بمطابق رجسٹری 300000 ، کارخانہ، مشینری، بزنس Capital، دستی کیش اور کاروباری سٹاک ظاہر کیا گیا۔

مزید یہ کہ اس سے کچھ عرصہ قبل ان کے بڑے فرزند *** والد حاجی***کو بھی 2018-10-25 میں خود بلا کر رجسٹرڈ کروایا اور ان کے بھی تمام کاروبار کے معاملات کی لین دین اور اثاثہ جات مکمل تفصیل کے ساتھ اندراج کروائے۔

اس سلسلے میں اگر کسی بھی قسم کی وضاحت درکار ہو تو رابطہ کرسکتے ہیں۔

نوٹ: دار الافتاء سے ***صاحب سے رابطہ کرکے مذکورہ بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں انسپکٹر ہوں اور ان سب بھائیوں کے ٹیکس کے معاملات میں دیکھتا ہوں، یہ تحریر میں نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہے اور دستخط بھی کیے ہیں۔

*** کا بیان:

میں *** اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں *** کے ساتھ تقریبا 17 یا 18 سال سے کام کر رہا ہوں  جو کہ حاجی ***کے بیٹے اس دوران *** حاجی صاحب کے ساتھ قبضے کا کام کرتا تھا۔اور آٹو بریک سوئچ بناتا تھا۔ حاجی صاحب کی بیٹیوں کی شادی ہونے والی تھی حاجی صاحب مقروض بھی تھے تو میں نے حاجی صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ آٹو لائن میں ہی آجاؤ قبضہ چھوڑ دو ۔ حاجی صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا اور *** کو بھی میں نے اسی بات پر منایا۔ میرے کہنے پر حاجی صاحب اور *** نے گھنٹی شروع کی اور ہارن شروع کیا۔ جس کے لیے میں نے پیسے دیئے جو کہ *** بھی جانتا ہے۔ جس کیلئے پیسے موجود نہیں تھے ۔ اسی دوران حاجی صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تو حاجی صاحب نے تمام تر کاروباری ذمہ داریاں *** کو ہی سونپی اور وہ یہی کہتے تھے کہ یہ کاروبار بھی *** کا ہی ہے۔ کیونکہ دونوں بیٹے کا روبار کرتے ہیں اور سیٹلڈ ہیں ۔ میں تو بس نگرانی کر رہا ہوں تا کہ یہ پاؤں پر کھڑا ہو جائے اور حاجی صاحب کے ہارٹ اٹیک کے دس بارہ دن بعد میں نے *** کو ایک لا کھ ایڈوانس دیا جس میں *** کو پیسے دینے آیا اس وقت حاجی صاحب بیڈ ریسٹ پر تھے اور پیسے میں نے *** کو ہی دیئے تھے ۔ حاجی صاحب کو *** کے کاروبار کی فکر تھی کہ دونوں بیٹے سیٹلڈ ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں ۔ اور قرض بھی تھا جو کہ ادا کرنا تھا اور *** کی شادی بھی رہتی تھی ۔ جس کیلئے رقم بھی مجھ سے ایڈوانس لی تھی۔ حاجی صاحب سے میری جو بات ہوئی تھی مجھے یہی کہا کرتے تھے کہ یہ کاروبار *** کا ہے۔ اور *** بھی میرے ساتھ لین دین کرتا تھا تو میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ کاروبار *** کا ہے اور آج تک *** ہی میرے ساتھ کاروبار کر رہا ہے۔ اس میں کسی بہن یا بھائی کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی کسی نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے۔ میرا ق رض بھی ***  ہی دے رہا ہے اور میں جس دن پیسے دینے آیا اس دن ڈاکٹر عاصم بھی میرے ساتھ تھے اور وہ بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ اس بات پر میں حلف بھی اٹھا سکتا ہوں کہ کاروبار*** کا ہے۔

نوٹ: دار الافتاء سے *** صاحب سے رابطہ کرکے مذکورہ بیان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بیان کی تصدیق کی اور کہا کہ میں ایک عرصہ سے ان کے ساتھ کاروباری معاملات کررہا ہوں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سوالات یہ ہیں کہ:

1۔ والد صاحب نے وفات سے ایک دن پہلے اپنی اولاد کے لیے جو وصیت کی تھی اس کی شرعا کیا حیثیت ہے؟

2۔ جو ایک مرلہ جگہ والد نے اپنی زندگی میں خرید کر *** کے نام لگا دی تھی وہ *** کی شمار ہو گی یا وراثت میں تقسیم کی جائے گی؟ نیز باقی پانچ مرلے زمین لینے کا زیادہ حقدار کون ہے؟

3۔ والد مرحوم نے جو مکان والدہ کے نام لگوایا تھا، کیا والدہ کے لیے وہ مکان اپنے بیٹے *** کے نام لگوانا درست تھا یا نہیں؟ اور والد کے اس فعل کو ظلم کہنا درست ہے یا نہیں؟ نیز اس مکان کے بدلے *** اپنا حصہ والدہ کو دے گا تو کیا والدہ اس حصہ کو جیسے چاہے استعمال کرسکتی ہے یا وہ حصہ اولاد میں تقسیم کرنے کی پابند ہو گی؟

4۔ کاروبار اور کاروبار میں موجود اثاثے جو والد مرحوم چھوڑ کر گئے وہ کس کے شمار ہوں گے؟ *** کے شمار ہوں گے یا وراثت میں شمار ہوکر ورثاء میں تقسیم ہوں گے؟

5۔ ان کے علاوہ باقی غیر متنازعہ جائداد کی تقسیم کس طرح ہو گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ انسان مرض الموت میں جب کوئی چیز اپنے وارث  کو ہبہ کرتا ہے تو یہ ہبہ وصیت کے حکم میں ہوتا ہے اور وارث کے حق میں وصیت تب معتبر ہوتی ہے جب  دیگر ورثاء اس پر راضی ہوں،مذکورہ صورت میں چونکہ بعض ورثاء راضی ہیں اور بعض ورثاء راضی نہیں ہیں اس لئے یہ  ہبہ شرعاصرف ان ورثاء کے حصوں میں جاری ہوگا جو اس پر راضی ہیں اور جو ورثاء راضی نہیں ہیں  ان کے حصوں میں یہ ہبہ جاری نہیں ہو گا بلکہ ان کو ان کا حصہ پورا ملے گا ۔

ہدایہ(4/514) میں ہے:

قال: "‌ولا ‌تجوز ‌لوارثه” لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث” ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ……… والهبة من المريض للوارث في هذا نظير الوصية” لأنها وصية حكما ……… قال: "إلا أن تجيزها الورثة” ويروى هذا الاستثناء فيما رويناه، ولأن الامتناع لحقهم فتجوز بإجازتهم؛ ولو أجاز بعض ورد بعض تجوز على المجيز بقدر حصته لولايته عليه وبطل في حق الراد

2۔ اس چھ مرلہ زمین میں سے ایک مرلہ زمین والد مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی خرید کر *** کے نام رجسٹری کروادی تھی اور رجسٹری بھی قبضہ کے حکم میں ہوتی ہے اس لیے وہ ایک مرلہ جگہ *** کی ہی شمار ہوگی۔باقی پانچ مرلے جگہ وراثت میں شمار ہوگی۔ اور اس جگہ کو لینے کا کسی وارث کو دوسرے سے زیادہ استحقاق نہ ہوگا، لہذا جو وارث بھی یہ جگہ لینا چاہتا ہے وہ دوسروں کی رضامندی کے بغیر نہیں لے سکتا۔

3۔ جو جگہ والدہ نے اپنے بیٹے *** کے نام لگوائی ہے وہ جگہ چونکہ والد مرحوم نے خرید کر والدہ کو ہبہ (gift)کی تھی اور پھر والدہ کے نام اس کی رجسٹری بھی کردی تھی اور رجسٹری  بھی چونکہ قبضہ کے حکم میں ہے جیسا کہ ذیل کے حوالوں میں سے امداد الاحکام کے حوالے  (نمبر:۱) میں مذکور ہے۔

لہذا یہ ہبہ درست ہوگیا تھا جس کی وجہ سے والدہ اس کی مالک بن گئی تھیں، جس کی وجہ سے ۱یہ جگہ والد مرحوم کی وراثت میں شمار نہ ہوگی۔ اور والدہ کا وہ زمین بیٹے کو دے دینا درست ہے۔  اور بدلے میں بیٹا جو اپنا حصہ والدہ کو دے گا وہ والدہ کی ہی ملکیت ہوگا جس میں وہ جو چاہیں تصرف کرسکیں گی۔ اس صورت میں والدہ کے فعل کو ظلم کہنا یا یہ کہنا کہ آپ کا یہ فیصلہ غلط ہے، درست نہیں۔

نیز والد مرحوم نے جو پلاٹ بیوہ کے نام لگوایا تھا اس میں اگرچہ ہبہ کے الفاظ مذکور نہیں البتہ قرائن سے اس کا ہبہ ہونا ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ بیوہ، مرحوم کے ساتھ کام بھی کرواتی تھیں جس کے صلے میں مرحوم نے پلاٹ بیوہ کے نام  کروا دیا تھا ۔ اور مرحوم کا بیوہ کو پلاٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’کسی مشکل گھڑی میں تیرے کام آجائے گا‘‘یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ مرحوم نے یہ پلاٹ بطور ہبہ کے بیوہ کے نام لگوایا تھا۔ اور جس طرح ہبہ صریح الفاظ سے ہوتا ہے اسی طرح قرائن سے بھی ہوجاتا ہے۔جیسا کہ ذیل کے حوالوں میں سے امداد الفتاویٰ کے حوالے (نمبر: ۲) میں مذکور ہے۔

لہذا ان قرائن کے بعد جب تک ہبہ نہ ہونے کی دلیل نہیں پائی جاتی تب تک اس کے ہبہ ہونے سے انکار کرنا درست نہ ہوگا۔ جیسا کہ ذیل کے حوالوں میں سے امدا الاحکام کے حوالے (نمبر:۳) میں مذکور ہے۔

دوسرے یہ کہ اگر یہ ہبہ نہ بھی مانا جائے تو یہ صورت شراءِ فضولی پر محمول ہوسکتی ہے جس میں بیع اس شخص کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے جس کے لیے بیع کی گئی ہو، اگر وہ اجازت دے دے تو موقوف بیع، منعقد ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں جب والد مرحوم نے بیوہ کے لیے پلاٹ خریدا تھا تو مرحوم کی حیثیت فضولی کی تھی جس کی وجہ سے یہ بیع بیوہ کی اجازت پر موقوف تھی، پھر اس کے بعد جب بیوہ نے رجسٹری کے کاغذات پر انگوٹھے لگائے تو یہ بیوہ کی طرف سے اجازت ہوئی جس سے بیوہ کے حق میں بیع نافذ ہوگئی۔  اور بیوہ اس پلاٹ کی مالک بن گئیں۔ جیسا کہ ذیل کے حوالوں میں سے امداد الفتاویٰ اور شامی کے حوالوں (نمبر: ۵،۶) میں ہے۔

نوٹ: اگرچہ امداد الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ شراء فضولی سے خود فضولی کے حق میں بیع ہو گی مشتریٰ لہ کے حق میں اجازت کے باوجود بیع نافذ نہ ہو گی۔ جیسا آگے حوالوں میں (حوالہ نمبر: ۴ میں) آرہا ہے۔

لیکن ایک تو امداد الفتاویٰ کے اس فتوے کے آخر میں دوسروں کو بھی غور کرنے کا کہا ہے اور دوسرے امداد الفتاویٰ کے ایک دوسرے فتوے میں فضولی کی بیع  کو موقوف لکھا ہے جیسا کہ آگے (حوالہ نمبر: ۵ میں) آرہا ہے اور اسی طرح شامی میں بھی شراء فضولی کو مطلقا منع نہیں لکھا بلکہ بعض صورتوں میں موقوف بھی مانا ہے جیسا  کہ آگے آرہا ہے۔ لہٰذا شراء فضولی کا مطلقا موقوف نہ ہونا درست نہیں۔

۱۔امداد الاحکام (4/49) میں ہے:

’’اس کے بعد تمام مفتیوں کو اس باب میں غور کرنا چاہیے کہ جائیداد مزروعہ پر قبضہ کی حقیقت کیا ہے؟ میرے خیال میں کسی شخص کو یہ معلوم ہوجانا کہ فلاں فلاں نمبر زمین کا میرا ہے اور اس کے نام داخل خارج کاغذات مال میں ہوجانا قبض عقار کے لیے کافی ہے، اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں، ورنہ اراضیٔ مقبوضہ کا تحقق بہت کم ہوگا، وفیہ من الحرج ما لا یخفی۔ پس جن اصحابِ فتویٰ نے صورتِ مسئولہ میں فسادِ ہبہ کا فتویٰ دیا ہے ان کو یہ تحقیق کرلینا چاہیے کہ صورتِ مسئولہ میں واہب اور موہوب لہ کے نمبر ہائے زمین ممتاز ہوکر موہوب لہ کے نام ان نمبروں کا داخل خارج ہوگیا تھا یا نہیں؟ اگر ہوچکا تھا تو یہ موہبہ ظاہر روایت پر بھی موہبہ فاسدہ نہیں۔‘‘

۲۔چنانچہ امداد الفتاویٰ (3/466) میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’***نے جو ***کو روپیہ دیا ہے عند الشرع ہبہ ہے، اگرچہ کوئی تصریح نہیں مگر ظاہرًا قرینہ ہبہ پر دلالت کرتا ہے، اور ہبہ میں قرینہ بھی تملیک کے لیے کافی ہے۔ قلت فقد افاد ان التلفظ بالايجاب والقبول لايشترط بل تكفي القرائن الدالة على التمليك كمن دفع الى الفقير شيئا وقبضه ولم يتلفظ واحد منهما بشيئ انتهى درمختار ۵۰۸‘‘

۳۔امداد الاحکام (4/43) میں ہے:

’’باپ جس زمین میں بیٹے کو مکان بنانے کی اجازت دیتا ہے ظاہر عرف یہ ہے کہ یہ زمین بیٹے کو ہبہ کردیتا ہے، اس لیے جب تک اس کے خلاف کوئی صریح دلیل نہ ہو اس زمین و مکان کو رجب علی مرحوم ہی کی ملک مانا جائے گا‘‘

۴۔امداد الفتاویٰ (3/38) میں ایک سوال کے جواب میں تحریر ہے:

ا’’اگر کسی کو شبہ ہو کہ یہ اشتراء فضولی ہے تو اس مشتریٰ لہ کی اجازت کے بعد اس کی ملک ہوجانا چاہیے، جواب یہ ہے کہ بیع للغیر میں تو اجازت غیر سے اس غیر پر نفاذ ہوتا ہے، مگر شراء للغیر میں خود مشتری پر نفاذ ہوتا ہے، کذا فی الدر المختار، پس اس غیر کی تملیک کے لیے عقدِ جدید کی حاجت ہوگی۔ فقط، آپ بھی غور کیجئے۔‘‘

۵۔امداد الفتاویٰ (3/415) میں ہے:

’’اگر واقعہ مطابق صورت مذکورہ سوال کے ہے تو زوجہ کے حق میں کوئی امر اسبابِ ملک سے نہیں پایا گیا، یعنی نہ وہ مشتری ہے، اصالۃ یا وکالۃ، اور نہ یہ ہے کہ شوہر نے بطور اشتراء فضولی کے اس کی طرف سے خریدا ہو اور اس نے اس بیع کو اپنی طرف سے جائز رکھا ہو، پھر خواہ ثمن خود دیتی یا تبرعا کوئی دوسرا دیتا، اور نہ زوج کی طرف سے کوئی صیغہ ہبہ پایاگیا، اور نہ زوج کی جانب سے کوئی اقرار اس کا کہ یہ جائیداد زوجہ کی ملک ہے پایاگیا، اور یہی اسباب مِلک کے اس صورت میں ہوسکتے تھے جو منتفی ہیں ، تو جائیداد ملک زوج کی ہے، زوجہ کی نہیں البتہ اگر اسبابِ مذکورہ میں سے کوئی امر باقرارِ زوج کے یا ورثہ زوجہ کے بینہ یعنی گواہ قائم کرنے سے ثابت ہو جاوے تو اس وقت جائیداد مِلکِ زوجہ کی ہے، اور میراث جاری ہوگی۔ وہذا کلّہ ظاہر۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘

۶۔درمختار (7/322) میں ہے:

”والحاصل أن بيعه [الفضولي. من الناقل] موقوف إلا في هذه الخمسة فباطل، قيد بالبيع؛ لأنه ‌لو ‌اشترى ‌لغيره نفذ عليه إلا إذا كان المشتري صبيا أو محجورا عليه فيوقف، هذا إذا لم يضفه الفضولي إلى غيره، فلو أضافه بأن قال بع هذا العبد لفلان فقال البائع بعته لفلان توقف. بزازية وغيرها“

4۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق والد نے جس کاروبار میں *** کو شامل کیا تھا اس کی نگرانی اگرچہ والد کرتے تھے لیکن وہ کاروبار *** کا ہے کیونکہ جس طرح باقی بیٹوں نے اپنا اپنا کاروبار سیٹ کرلیا تھا جبکہ *** نے والد کے کہنے پر اپنا کاروبار بیچ کر والد والے کاروبار میں شامل کردیا تھا اور کاروبار کے جملہ اثاثے اور دیگر معاملات بھی والد نے *** کے ہاتھ میں دے دیئے تھے (جیسا کہ ****** صاحب کے بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے) اور والد کی وفات کے بعد بھی کاروبار سے متعلق تاجروں کے ساتھ سارے معاملات مثلا قرض وغیرہ *** نے ہی سرانجام دیئے اور دے رہا ہے (جیسا کہ *** صاحب کے بیان سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے) اس لیے وہ کاروبار *** کا ہی شمار ہوگا، والد مرحوم کی وراثت میں شمار نہ ہوگا۔

5۔اس کے علاوہ جتنی جائداد والد مرحوم کی ملکیت میں تھی وہ وراثت شمار ہوگی جس کی ورثاء میں تقسیم اس طرح ہوگی کہ والد کی وراثت کے 104حصے کیے جائیں گے جن میں سے مرحوم کی اہلیہ کو 13 حصے (12.5فیصد)، مرحوم کے تین بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو 14 حصے (13.46فیصد فی کس) اور سات بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو 7 حصے (6.73فیصد فی کس) ملیں گے۔ نیز جو وارث اشیاء وراثت میں سے جو چیز بھی لے گا وہ دوسرے ورثاء کو ان کے حصوں کے بقدر رقم ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

8×13=104:مسئلہ

بیوہ3بیٹے7بیٹیاں

ثمن                    ……………………………………                عصبہ                  

7×13=91………………………….1×13=13

………………………..14+14+14                7+7+7+7+7+7+7

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

 

 

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved