- فتوی نمبر: 13-334
- تاریخ: 01 جنوری 2019
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
صوفی عبدالمجید مرحوم1988کی اولاد میں صوفی عبدالعزیز مرحوم2018،خورشید عالم خان مرحوم 2009،عبدالرشید مرحوم1975،فاطمہ بیگم (بیوہ1954)مرحوم1993
محمد افضل حیات شادی شدہ حاحب اولاد۔ شمیم بیگم حیات شادی شدہ صاحب اولاد۔ مہرالنساء مرحوم(13/07/2002)شادی شدہ صاحب اولاد۔ خاتون بیگم حیات شادی شدہ صاحب اولاد۔
۱۔ سوال یہ کہ مرحوم(1975)خورشید عالم خان نے ایک عدد پلاٹ تقریبا ساڑھے آٹھ مرلے کا خرید کر اپنی بہن فاطمہ بیگم کے نام کروایا یعنی پیسے خورشید عالم نے دئیے اور خریداری میں نام اپنی بہن فاطمہ بیگم کا لکھوایا اور ان کی معاشی کفالت کے پیش نظر انہیں دینا مقصود تھا انہیں دے بھی دیا گیا اور خورشید عالم اپنی اولاد سے اس وقت یہ کہاتھا کہ یہ پلاٹ فاطمہ بیگم کا ہے اولاد کو یہ بات تسلیم بھی ہے۔فاطمہ بیگم 1954میں انڈیا میں بیوہ ہوگئی تھیں ان کو ان کو اور ان کی دو لڑکیوں کو انڈیا سے پاکستان بلوایا اور ان کی کفالت انڈیا میں بھی کی اور پاکستان میں بھی نیز مرحوم خورشید عالم خان اور ان کے بھائی صوفی عبدالعزیز نے ان کی شادیاں بھی کروائیں،اب دونوں لڑکیاں صاحب اولاد ہیں جن میں سے مہر النساء وفات پاچکی ہیں ان کی اولاد حیات ہے۔ فاطمہ بیگم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔
۲۔ فاطمہ بیگم نے یہ پلاٹ اس طرح سے تقسیم کیا کہ ساڑھے چار مرلے جانب جنوب اپنے بھائی خورشید عالم خان کو دے دیا جس کا قبضہ بھی موقعہ پر دے دیا اور دیگر اصل کاغذات بھی خورشید عالم کے حوالے کردئیے تھے ۔اس چار مرلہ جگہ میں سے نصف پرمدرسہ قائم ہے اور یہ جگہ اس وقت سے خورشید عالم کے قبضے مںی ہے ۔فاطمہ بیگم نے 1991میں خورشید عالم کو زبانی ہبہ کیا اور موقع پر قبضہ بھی دیدیا اور بقیہ دوحصے اپنی بیٹیوں کو ہبہ کیا اور قبضہ دیدیا۔
۳۔ اورباقی چار مرلے مرحوم فاطمہ بیگم نے اپنی دوبیٹیوں کو برابر دے دیاتھا اور قبضہ بھی ۔اس بابت ایک دستاویزات اقرارنامہ مورخر03-05-1991کو تحریر کیا تھا ۔زندگی میں کسی کو اس تقسیم پر کوئی عذر اور اعتراض نہ تھا جبکہ صوفی عبدالعزیز نے بھی اس بات کی تصدیق کردی تھی ۔جس کے بابت ایک اقرار نامہ بھی اپنی زندگی میں لکھ دیاتھا۔اب یہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا ہے ۔انتقال کے بعد ایک بیٹی کی اولاد نے ،خورشید عالم خان کو دیئے گئے حصہ ساڑھے چارمرلے میں اپنے حصے کامطالبہ کرنے کے لیے بعدالت جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیس دائر کیا ہوا ہے جس کا عنوان ہے۔
اب یہ کہ مذکورہ جائیداد میں ازروئے شریعت فقہ حنفی بطور وراثت حق بنتا ہے یا نہیں ؟اگر حق بنتا ہے تو کس قدر بنے گا ؟ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت وارث کے لیے وصیت کی ہے ۔وارث کے لیے وصیت کا حکم یہ ہے کہ وہ دوسرے ورثاء کی اجازت اور رضامندی پر موقوف ہوتی ہے ۔لہذا مذکورہ صورت میں اگر کل ورثاء اس وصیت کے مطابق عمل کرنے پر راضی تھے یا اب راضی ہیں بشرطیکہ سب عاقل بالغ ہوں تو اس وصیت کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوگا۔ اور اگر کچھ ورثاء راضی ہیں اور کچھ راضی نہیںتو جو راضی ہیں ان کے حصے کی حدتک اس پرعمل کرنا ضروری ہو گا اور جو راضی نہیں ہیں ان کو ان کا شرعی حصہ دینا ضروری ہو گا۔اور اگر کوئی وارث بھی راضی نہیں ہے تو اس جائیداد کو ورثاء کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔
مذکورہ صورت میں ورثاء کے شرعی حصے اس طرح ہوں گے کہ کل جائیداد کو چھ حصوں میں تقسیم کرکے دو ،دو حصے فاطمہ بیگم کی ہر بیٹی کو اور ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء کواور ایک ،ایک حصہ فاطمہ بیگم کے ہر بھائی کو اور ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء کو ملے گا۔صورت تقسیم یہ ہو گی:
2×3=6
بیٹی ———– بیٹی—————– بھائی —————— بھائی
4=2×2/3 2=2×1/3
2 2 1 1
© Copyright 2024, All Rights Reserved