• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وارث کے لیے وصیت کا حکم

استفتاء

میرا نام علی ہے۔ میرے نانا ابو (زید ) کی وفات 24-03-11 کو ہوئی۔ اس کے بعد میری والدہ(زینب ) اور میری خالہ عائشہ ،  فاطمہ ، مریم ،  راشدہ  نے میرے ماموں  خالد  اور میرے ماموں  عمر  مرحوم کے بچوں اور میری سوتیلی نانی  عالیہ بیگم سے وراثت کی تقسیم کے بارے میں بات کی تو انہوں نے ہمیں نانا ابو کا وصیت نامہ نکال کر دکھایا اور وہ یہ بات کہتے ہیں کہ آپ کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں ۔ میرے نانا ابو نے جس وقت وصیت کی تھی تو ان کی دوسری بیگم  عالیہ سے دو بیٹیاں  کائنات  اور  پروین تھیں  جن کی عمر اس وقت تقریبا دو اڑھائی سال تھی اور جس وقت نانا ابو نے 1992-12-08 میں وصیت کی تھی اس  وقت میرے نانا ابو شدید بیمار ہو گئے تھے۔ تو انہوں نے وصیت میں لکھا تھا کہ جب تک ان کی شادی نہیں ہوگی تو یہ مالک ہیں۔لیکن اب ان کی شادی ہو چکی ہے اور ان کی یہ وصیت تقریبا ان کی وفات سے  32 سال پہلے کی ہے۔

زید  کی پہلی بیگم اور اولاد:

1۔  ماریہ  بیگم [بیوی]  (وفات 1998-01-08)2۔بکر [بیٹا] (وفات2024-12-24 ) 3۔عمر  [بیٹا] (وفات 2019-04-26)4۔ خالد 5۔عائشہ 6۔ فاطمہ 7۔  مریم 8۔  زینب 9۔ راشدہ

زید  کی دوسری بیوی اور اولاد:

1۔ عالیہ بیگم (بیوی) 2۔ کائنات ( حقیقی بیٹی)3۔   پروین (حقیقی بیٹی)4۔  نسرین (سوتیلی بیٹی)

وصیت نامہ کی عبارت:

میں مسمی  زید  ولد  ضیاء  ساکن ******  کا ہوں۔۔۔۔۔کہ من مقر کی عمر 72 سال ہو گئی ہے معلوم نہیں کب حیات مستعار کا چراغ بجھ جائے. بڑھاپے کی وجہ سے نقاہت  بہت بڑھ گئی ہے اور زندگی کا اب کوئی  اعتبار نہیں۔ لہذا من مقر  کی بیوی عالیہ بیگم زوجہ  زید ساکن ****** نےمیری ہر طرح سے بڑی خدمت و خاطر کی ہے اور زندگی بھر میرے ساتھ رہی ہے ہر دکھ سکھ میں میرا ہاتھ بٹایا ہے زندگی میں جو احسانات و خدمت میری بیوی عالیہ بیگم نے  مجھ پر کیے ہیں وہ میں کبھی نہ بھلا  سکتا ہوں۔ لہذا میں اپنی جائیداد  ملکیتی بروئے دستاویز نمبر 1862 ۔۔۔۔۔کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ میری زندگی یعنی بعد از فوتگی میری جائیداد مذکورہ بالاکی مالک میری منکوحہ عالیہ بیگم ہوگی جو مندرجہ ذیل شرائط کے تحت اس جائیداد  کو استعمال کرنے کی حقدار ہوگی یہ کہ جائیداد مذکورہ کی فروختگی کا حق عالیہ بیگم کو نہ ہے جائیداد مذکورہ کو صرف ذاتی استعمال کر سکتی ہے یا کرایہ وغیرہ حاصل کر سکتی ہے دیگر اگر نکاح ثانی کرے تو جائیداد مذکورہ سے بے دخل ہوگی عالیہ بیگم کے پیٹ سے میری تین بیٹیاں (نسرین ، کائنات ، پروین) ہیں  جو کہ اپنی والدہ کے بعد مالک  وقابض  مذکورہ بالا جائیداد کی ہوں گی لیکن بعداز شادیاں وہ بھی جائیداد مذکورہ کی مالکہ نہ ہوں گی اور اس کے بعد میرے بیٹے جو کہ دوسری بیوی کے بطن سے ہیں وہ ودیگروارثان مالک ہوں گے لہذا یہ وصیت میری آخری اور قطعی ہے اور اس پر عمل میری موت کے بعد کیا جائے گا  ……………

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  زید مرحوم کی وراثت ان کی وصیت کے مطابق تقسیم نہ ہوگی بلکہ شرعی ورثاء  میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔جس کی تفصیل یہ ہے  کہ   زید  مرحوم کی وراثت کو 72 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا  جن میں سے نو حصے (12.5 فیصد )مرحوم کی بیوہ کو، اور 14 حصے(19.44 فیصد ) مرحوم کے بیٹے  خالد کو ، اور 7-7 حصے(9.72 فیصد فی کس) مرحوم کی بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو  ملیں گے۔

توجیہ : وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں البتہ اگر دیگر  ورثاء اپنی رضامندی سے اس پر عمل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔مذکورہ صورت میں  زید  نے اپنے ورثاء کے لیے وصیت کی ہے جس پر عمل کرنا ورثاء پر لازم نہیں لہذا جو ورثاء  اپنا حصہ لینا چاہیں  انہیں ان کا حصہ دینا لازم ہے۔

نیز  مرحوم کی  سوتیلی بیٹی  نسرین جو دوسرے شوہر  سے ہے  وہ  زید  کی وارث نہیں ہے  لہٰذا ان کے حق میں مرحوم کی وصیت معتبر ہوگی لیکن  نسرین کی  بھی چونکہ شادی  ہوچکی ہے اس لیے وہ  اس وصیت کی وجہ سے  بھی مزید کسی چیز  حقدار نہ ہوگی  اور  عمر  مرحوم جو زید کا بیٹا ہے  ان کی وفات زید سے پہلے ہی ہو چکی تھی لہذا وہ  یا ان کے بچے  بھی شرعاً مرحوم ابراہیم کے وارث  نہ ہوں گے۔

ہندیہ(6/90) میں ہے:

ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved