• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت کی تقسیم کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

حاجی *** وفات پاگئے ہیں،وراثت میں زیور ،زمین اور مال مویشی چھوڑا ہے،اورورثاء میں والد، پانچ بھائی،ایک بہن، دو بیویاں اور ایک بیٹی چھوڑی ہے،جبکہ حاجی *** کے ذمے قرض بھی ہے، حاجی *** نے اپنی وراثت میں سے تیس تولے زیور اپنی دوسری بیوی کو دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن مالک نہیں بنایا تھا،شریعت کی روشنی میں وراثت کیسے تقسیم کی جائے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں حاجی *** کے ترکہ میں سے پہلے ان کا قرضہ ادا کیا جائے گا،اس کے بعدجو ترکہ بچے گا  اس کے48 حصے کئے جائیں گے، جن میں سے18حصے (37.5فیصد)ان کے والد کو اور 24حصے (50فیصد)ان کی بیٹی کو اور 3حصے(6.25فیصد) دونوں بیویوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے، حاجی ***  کے بہن ،بھائیوں کو ان کی وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔

نوٹ:چونکہ  حاجی *** نے اپنی دوسری بیوی کو تیس تولے زیور  دینے کا صرف وعدہ کیا تھا مالک نہیں بنایا تھا،اس لئے اس  کو تیس تولے زیور نہیں ملے گا ،بلکہ وراثت میں جتنا حصہ بنتا ہے صرف  وہی ملے گا۔

فتاوی عالمگیری(447/6،ط:حقانیہ) میں ہے:

‌التركة ‌تتعلق ‌بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف……….. ثم بالدين…….. ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين………. ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث

مجمع الانہر(353/2) میں ہے:

‌‌[‌أركان ‌الهبة]

وركنها هو الإيجاب والقبول، وعن هذا قال: (وتصح) الهبة (بإيجاب وقبول) على ما في الكافي وغيره؛ لأنها عقد وقيام العقد بالإيجاب والقبول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved