• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)۔وراثت میں ملنے والے مشترکہ کارخانے سے قرض اورخرچہ کے رقم نکالنے کی وجہ سے کارخانہ میں سے وراثتی حصہ ختم ہونا(2)شراکت ختم کرنا(3)کارخانہ سے مشترکہ اخراجات کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب! ہمارے والد صاحب کا 5 ستمبر 2014 میں انتقال ہوا ،ان کے والدین ان کی وفات سے پہلے وفات پا

چکے تھے۔ورثاء: ہماری والدہ، بڑی بہن، چھوٹی بہن، عبد الباسط، عبد الباری، محمد عمر، عبداللہ۔

ابو کا ایک کارخانہ تھا  جس میں ابو کے ساتھ عبداللہ کام کرتا تھا، کار خانے میں اس وقت 13 لاکھ کا مال موجود تھا، عبدالباسط ابو کے ساتھ شراکت پر ایک دکان چلاتا تھا جس میں اس وقت 8.5لا کھ کا مال موجود تھا، سوا دوماہ بعد عبدالباسط نے کہا یہ شرکت اب ختم، یہ پیسے میری طرف ادھارمیں لکھ لو،بعد میں عبدالباسط نے پچاس ہزار روپے کا مال  کارخانے سے مزید لیا،یوں اس کی طرف9 لاکھ روپے ہوگئے.

عبدالباری بھی ابو کے ساتھ شراکت پر ایک دکان چلاتا تھا جس کی مالیت اس وقت 8.5 لاکھ تھی،ابو کے انتقال کے بعد عبدالباری کودکان ختم کرکے کارخانہ سنبھالنے کی ذمہ داردی گئی، اس وقت دکان سے اصل راس کے علاوہ تین لاکھ 55ہزار منافع ہوا تھا ،اس میں آدھامنافع عبدالباری کا اور آدھاوالد صاحب کا تھالیکن حساب کرنے پر عبدالباری اپنے منافع کے علاوہ ایک لاکھ 82 ہزار روپیے دوکان سے زائد وصول کرچکا تھا، ہم سب بہن بھائیوں نے یہ اضافی رقم معاف کر دی۔عبدالباری نے دوکان کی راس 8.5 لاکھ روپے کارخانے میں جمع کرا دی اور خود دکان چھوڑ کر عبداللہ کے ساتھ کارخانہ سنبھال لیا اور تنخواہ پر کام شروع کر دیا۔

2016 میں چھوٹی بہن کی شادی ہوئی تو اس وقت کارخانے کی کل راس کا حصہ کرکے اس کو چار لاکھ دس ہزار روپے طلائی زیور کی صورت میں اسے دے دیا۔اس کے بعد 2016 میں ہی والدہ کا حصہ پانچ لاکھ 75000 والدہ کو دے دیا، کیونکہ عبدالباسط کو کاروبار میں نقصان ہوا تھا وہ حصہ والدہ نے عبدالباسط کو دے دیا۔

2016میں ہی محمد عمر نے 10لاکھ روپے اپنا حصہ وصول کر لیا،بعد میں حساب کرنے پر اس کا حصہ 9 لاکھ 57 ہزار بنتا تھا، اس نے کہا کہ یہ دس لاکھ روپئے میری طرف ادھار لکھ دو اور ایک لاکھ واپس کئے۔2017 میں حساب کرکے بڑی بہن کا حصہ 7.5لاکھ بنتا تھا وہ اس کو نقددےدیا۔

والدہ اور دونوں بہنوں کا حصہ کارخانے سے ہم نے دے دیا ،عمر اور عبدالباسط نے نو نو لاکھ وصول کیے اور ادھار

کرلیے،عبداللہ اور عبدالباری نے 2018 میں کارخانے سے وقتا فوقتا نو،نو لاکھ وصول کئے تاکہ بھائیوں کے برابر وصول ہو جائے.

سوالات

1.اب موجودہ وقت میں کارخانے کی مالیت تقریبا 50 لاکھ روپے ہے۔ عمر اور عبدالباسط اپنی علیحدہ علیحدہ دکانیں بھی چلاتے ہیں اور اس سے عام نفع وصول کر تے ہیں۔

عبدالباری اور عبداللہ کارخانہ چلاتے ہیں اور دن رات محنت کرتے ہیں، سال بعد حساب کر کے حاصل ہونے والے مال میں اپنے بھائیوں کو حصہ دار بھی بناتے ہیں جبکہ وہ نو ،نو لاکھ  لے چکے ہیں ۔کیا یہ دونوں حصہ دار بنتے ہیں؟

2.اب ہم یعنی عبدالباری اور عبداللہ مزید کارخانے کو شراکت پر نہیں چلانا چاہتے، اس پر ہمارے دونوں بھائی راضی نہیں ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟مطلب ہم یہ چاہتے ہیں کہ عمر اورعبدالباسط اپنا حصہ ہمیں فروخت کردیں اورہم کارخانہ چلاتے رہیں۔

  1. کیا اب ہم اپنے دونوں بھائیوں کو مزید حصہ دیں؟
  2. سابقہ باتوں میں ہم رضامندی اور شریعت کے مطابق تقسیم کرکےبہن اور والدہ کا حصہ دےچکے ہیں۔ کیایہ ٹھیک ہے؟

نوٹ:کارخانے سے بہت سے مشترکہ اخراجات بھی پورے کئے جاتے ہیں مثلاً گھر کے بجلی کے بل، زکوۃ ،دوبہنوں اور بھائی کی شادی، قربانی وغیرہ.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔عبدالباسط اور عمر نے 9, 9 لاکھ روپے بطور قرض  کے لیے ہیں  جبکہ عبداللہ اور عبدالباری نے  بھی کارخانے سے وقتا فوقتاً نو، نو لاکھ وصول کیے تاکہ بھائیوں( عمر اور عبدالباسط) کے برابر صول ہوجائے لہذا جس طرح عبد اللہ اور عبد الباری نو،نو لاکھ وصول کرنے کے باوجود خانے میں حصہ دار ہیں اسی طرح عمر اور عبدالباسط بھی نو ، نو لاکھ  وصول کرنے کے باوجود کارخانہ میں حصہ دار ہیں ۔البتہ  چونکہ عبد اللہ اور عبد الباری نے محنت بھی کی ہے جبکہ عمر اور عبدالباسط کا صرف سرمایہ ہے اس لئے عبداللہ اور عبدالباری کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کا محنتانہ الگ سے ملے گا۔

2۔باہمی رضامندی کے بغیر شرکت ختم نہیں ہوسکتی۔

3.دونوں بھائی چونکہ اس کارخانے میں شریک ہیں لہذا موجودہ ویلیو  کے لحاظ سے وہ اس میں حصہ دار ہیں اور انہیں ان کا حصہ دینا پڑے گا۔

  1. اگر والدہ اور بہنوں کو اس تقسیم پر کوئی اعتراض نہیں تو وہ درست ہے ۔

5.مشترکہ اخراجات اگر باہمی رضامندی سے کیے جاتے ہیں تو ٹھیک  ہے ورنہ وہ ہر  ایک  کے حصے سے منہا ہونگے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved