• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت میں متعلق تفصیل سوال

استفتاء

*** مرحوم لا ولد فوت ہوگیا۔ جس کی وراثت اور ورثاء کی فہرست ذیل ہے۔ مرحوم سرکاری ملازم تھا اور اس کی بیوی بھی 1990ء سے ملازمہ تھی جو اپنی کمائی تنخواہ بھی مرحوم کو دے دیتی تھی۔ جس کا حساب کتاب نہیں تھا۔ ورثاء میں بیوی، دو سگی بہنیں *****، ایک چچا *** ( حیات)، چچا **مرحوم ( اولاد موجود)، چچا** مرحوم ( اولاد موجود)، سگا ماموں **مرحوم ( اولاد موجود)، سگا ماموں **( حیات)، مادر زاد خالہ م**       ( حیات)، پدر زاد ماموں بھی اور خالائیں بھی حیات ہیں۔

ترکہ میں زرعی زمین، سکنی زمین، سکنی زمین کے دو پلاٹ ہیں۔ ایک پلاٹ یعنی گھر جس میں مرحوم رہائش پذیر تھا اور اب بیوی رہائش پذیر ہے جو بیوی کی ملازمت کے دوران ہی تعمیر ہوا تھا۔ دوسرا پلاٹ جو کہ سڑک کے کنارے چار دیواری کے اندر مقفل ہے۔ اس کا نصف 88مرحوم کے والد غلام حسین ے خود خریدا تھا۔ دوسرا آدھا والد کے بعد والدہ کی زندگی میں میاں بیوی (88مرحوم اور اس کی بیوہ) کی مشترکہ کمائی سے خریدا گیا۔

رقم حج***۔ امسال حج کی سعادت کے لیے چونکہ میاں بیوی (*** مرحوم اور اس کی بیوہ) دونوں حج پر جارہے تھے۔ بنک کے قانون کے مطابق دوسرا مختیار طلب کیا جس پر بھانجے ** کو مختیار بنایا گیا واضح رہے کہ جب قرعہ اندازی میں نام نہ آیا اس وقت مرحوم زندہ تھا اور عید الفطر کے بعد فوت ہوا۔

زیورات: جو کہ بیوی کے حق مہر کے علاوہ ہیں، چار عدد چوڑی سونے کی،سونے کا لاکٹ ( ہار)، اول الذکر یعنی چار چوڑی بیوی کو بنوا کر دی واضح رہنے اس وقت بیوی بھی ملازمہ تھی۔ موخر الذکر یعنی لاکٹ پہلے حج پر جب88مرحو گیا تھا تو دیگر عزیز و اقارب کے لیے دوسرے تحائف لایا اور واپسی پر بیوی کو بھی یہی لفظ استعمال کیا یہ تمہارا تحفہ ہے۔ واضح رہے کہ بیوی اس وقت بھی ملازمہ تھی۔

رقم پنشن گریجویٹی۔ پنشن کے قوانین کے مطابق ملازم اپنی مختیارمالک اپنی زندگی میں مقررہ کرتا ہے جو اس نے بیوی کو مقرر کیا تھا۔

متوفی دوان ملازمت فوت ہوگیا۔ اس وقت پنشن اس کی بیوی وصول کرے گی اب اس پنشن جو یک لخت ملتی ہے اور گریجوایٹی جو بر وقت ملتی ہے۔ یا ماہوار پنشن ملتی ہے۔ اس کی تقسیم کار؟ لیکن ملکی قانون کے مطابق اس پر بیوی کا استحقاق ہوتا ہے۔ فیصلہ شریعت کی رو سے ہوگا۔

اشیاء صرف: پرانے زمانے کے بکس یا دیگر سامان جو والدین سے وراثت میں آئے ( لیکن ہیں معمولی نوعیت کے)۔ جو میاں بیوی دونوں کی کمائی سے لیے گئے مثلاً برتن، بستر، واشنگ مشین، پنکھے، کولر پنکھا، فریج و دیگر سامان گھریلو وغیرہ وغیرہ کی تقسیم کار؟

بیوہ کی حج کی رقم : چونکہ میاں بیوی دونوں ملازم تھے اور بغیر کسی حساب کتاب کے دونوں نے الگ الگ رقم جمع کرائی مرحوم** کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ بیوی کی رقم حج ہنوز بینک میں جمع ہے۔

بیوی بینک اکاؤنٹ: ملکی قانون کی رو سے تنخواہ کے حصول کے لیے ہر ملازم کا بینک اکاؤنٹ ہونا لازم ہے جو موجود ہے جو بغیر یاداشت کے قلیل رقم اکاؤنٹ میں موجود ہے۔

نوٹ: **مرحوم کی شادی 1985ء میں ہوئی اور اس کی بیوی 1990ء سے ملازمہ ہوئی، جب ** مرحوم کے والدین حیات تھے۔ بیوہ مذکورہ اپنی تنخواہ بغیر کسی حجت واپسی اپنے شوہر مرحوم کو دیتی رہی۔ کیونکہ اس میں شوہر کی خوشنودی مقصود تھی تاکہ گھر میں کوئی ناراضگی نہ ہو۔ اب اس صورت میں آیا بیوی اپنی تنخواہ کاکوئی حق اس کی وراثت میں سے طلب کرسکتی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مرحوم کے ترکہ کے کل بارہ حصے کر کے ان میں سے 3 حصے بیوہ کو ملیں گے اور ہر بہن کو 4- 4 حصے ملیں گے اور جو چچا حیات ہیں ان کو ایک حصہ ملے گا۔ باقی سب محروم ہوں گے۔

جو کچھ میت کی ملکیت تھا وہ سب تقسیم ہوگا اور جو کچھ بیوی کا ہے اور صرف بیوی کو ملے گا۔ جو چیزیں مشترک کمائی سے خریدی گئی ہیں ان میں جتنا حصہ مرحوم کا ہے صرف اتنا حصہ تقسیم ہوگا۔

پنشن صرف انہی افراد کو ملے گی جو میت کے زیر کفالت تھے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved