- فتوی نمبر: 8-219
- تاریخ: 03 مارچ 2016
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
گذارش ہے کہ میرے والد صاحب نیک آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی سمجھ کے مطابق یہ وصیت نامہ لکھوایا تھا، میری والدہ حیات ہیں۔ ہم نے یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا یہ شریعت کے مطابق ہے؟ اس کے مطابق ہی تقسیم کریں؟ اگر نہیں تو شریعت کے مطابق ہمارے بہن بھائیوں میں حصے بنا دیں تاکہ ہمارے والد صاحب مرحوم پر قیامت کے دن اور قبر میں اعمال نامہ میں کوئی بوجھ نہ ہو۔ ہم کل 5 پانچ بہنیں، 4 بھائی اور ایک والدہ ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے وقت دادا، دادی زندہ نہیں تھے۔ واضح رہے کہ تمام ورثاء عاقل بالغ ہیں۔
تفصیل سے حصے لکھ دیں تاکہ عمل کرنا آسان ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مرحوم کی وفات کے وقت جو جائیداد ان کی ملکیت میں تھی، اس کی شرعی تقسیم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر سب ورثاء والد مرحوم کی، کی ہوئی وصیت کے مطابق تقسیم کرنے پر رضا مند ہوں، تو اس وصیت کے مطابق تقسیم کریں۔ اور اگر سب ورثاء یا ان میں سے کچھ اس وصیت کے مطابق تقسیم پر رضا مند نہ ہوں تو پھر وراثت کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ یا کم از کم غیر رضا مند وارث کو وراثت کے مطابق حصہ دینا ضروری ہے۔
وجہ یہ ہے کہ یہ وصیت ورثاء سے متعلق ہے۔ اور ورثاء سے متعلقہ وصیت کے مطابق تقسیم کرنا، ورثاء کی رضا مندی پر موقوف ہوتا ہے۔
في الدر المختار (10/ 326):
(و لا لوارثه و قاتله مباشرة) لا تسبيباً كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه السلام ”لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة“ يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث و سنحققه (و هم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير و مجنون و إجازة المريض كإبتداء وصية و لو أجاز البعض و رد البعض جاز على المجيز بقدر حصته. و قيل إذا رضي الوارث به بعد موته فحيئنذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة.
وراثت کے مطابق تقسیم کرنے کی صورت میں طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو 88 حصوں میں تقسیم کر کے 11 حصے بیوی کو، اور 14-14 حصے ہر بیٹے کو، اور 7-7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:
11×8= 88
بیوی 3 بیٹے 5 بیٹیاں
8/1 عصبہ
1×11 7×11
11 77
11 14+14+14 7+7+7+7+7
نوٹ: جس جائیداد کے بارے میں تمام ورثاء متفق ہیں کہ وہ مرحوم والد صاحب کی ملکیت تھی اور وفات تک ان ہی کی ملکیت میں رہی، اس کی تقسیم تو مندرجہ بالا طریقے کے مطابق ہی ہو گی۔ اور جس جائیداد کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مرحوم والد صاحب کی ملکیت تھی یا ورثاء کی ملکیت تھی یا بعض ورثاء نے وہ خریدی تھی یا بعض کو والد نے اپنی زندگی میں ہدیہ کر دی تھی وغیرہ وغیرہ تو اس کے بارے میں دار الافتاء اسی وقت کوئی رائے دے سکتا ہے کہ جب اس جائیداد سے متعلق تمام فریقوں کا تحریری حلفیہ بیان بمع شواہد کے سامنے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved