• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ورثاء کی رضامندی سے موروثی مکان استعمال کرنا

استفتاء

آپ کے ساتھ  دیر ینہ   قلبی واصلاحی  اور  والد  صاحب کی آپ کے ساتھ  قلبی  وابستگی  کی بنا  پر  ان کی  وفات  کے بعد ان  کی تحریر  کردہ  وصیت  اور وراثت  کے معاملات  سے متعلق استفسار   حاضر خدمت ہے  :والد صاحب کی وصیت درج ذیل ہے:

وصیت نمبر1:(7) مرلہ پلاٹ واقع شاہ خاور ٹاؤن بہ ملکیت** جس کی مالیت مبلغ150000(ایک لاکھ پچاس ہزار )روپے  صرف****کے ذمہ واجب الادا ہیں وہ اگر یہ رقم میری (بیگ) اور میری اہلیہ (***)کی زندگی میں ادا کردے تو ہم اس کو استعمال کریں گے بصورت دیگر مذکورہ بالا رقم تمام بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگی اور بہنوں کا حصہ اس رقم  میں نہ ہوگا۔

وصیت نمبر2: پلاٹ: رقبہ( 5) مرلہ بمعہ رجسٹری اور(1) مرلہ بغیر رجسٹری واقع ٹاؤن دونوں بہنوں میں برابر تقسیم ہوگا،اس کی ترتیب  ڈھائی مرلہ  اور ساڑھے تین مرلہ ہوگی جس میں دونوں کو ڈھائی مرلہ رجسٹر ڈ  شدہ زمین دی جائے گی اور جو کوئی پلاٹ کا پچھلا حصہ  لے گااس کو  1 مرلہ مزید غیر رجسٹرڈ حصہ بھی دیا جائے گا۔

وصیت نمبر3:دوسرا مکان رقبہ 7 مرلہ واقع بانی پورہ میری اولاد کے لیے وقف ہوگا صرف بیٹوں کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے ،اس کو کوئی فروخت نہ کر پائےگا۔جب اولاد صاحب حیثیت ہوجائے اور  مذکورہ بالا مکان سے غنی ہوجائے تو یہ مکان کسی مسجد کے لیے وقف کردیا جائے ۔

وصیت نمبر4:میری اور میری اہلیہ کی ملکیت کی تمام چیزیں فروخت کرکے صدقہ کردی جائیں خواہ فرنیچر ہو یاکوئی زیور وغیرہ ۔

ہمارے سوالات یہ ہیں کہ :

(1)والد  صاحب  کی تحریر  کردہ  وصیت  کی شرعی  حیثیت کیا ہے ؟اسی طرح مذکورہ بالا وصیت کے  نصف  حصہ پر والد صاحب کی زند گی  میں ہی  عمل در آمد ہو چکا تھا  جبکہ  نصف حصہ  جو کہ ہمارے موجو دہ  مکان  سے متعلق ہے  جہا ں ہم تین بھائی سکونت  پذیر  ہیں شرعی  طور پر اس کی تقسیم  کا کیا معیار  ہوگا   ؟

(2)وراثتی مکان رقبہ 7 مرلہ  جس کے نصف حصہ  پر ہم  تین  بھائی ندیم ،نعمان ، اور زمان   ساکن  و قابض ہیں  جبکہ  بقیہ  تقریباً نصف حصہ والد ہ صاحبہ  کے زیر تصرف  ہے ، مذکورہ مکان  میں بقیہ حصہ  داروں  یعنی دوبہنوں  اور ایک بھائی  کی دلی  رضامندی   کی بنا پر ہم  بھائیوں  کا  اس میں  رہنا درست  ہوگایانہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے :وصیت نمبر2 میں بہنوں سے کس کی  بہنیں مراد ہیں؟

جواب وضاحت :موصی کی بیٹیاں جبکہ سائل کی بہنیں مراد ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)موصی (وصیت کرنے والا)کے  وصیت کرنے سے مال میں موصیٰ  لہ (جس کے لیے وصیت کی گئی ہے )کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے۔

جبکہ آپ نے جو وصیت نامہ ساتھ لف کیا ہے اس میں  4 وصیتیں ہیں ۔

وصیت نمبر 1 بيوی کے لیے ہے ۔لہذا ایک لاکھ پچاس ہزار روپے (جوکہ***کے ذمہ واجب الاداء ہیں )میں تمام وارثوں کی رضامندی سے وصیت جاری کی جاسکتی ہے بشرطیکہ تمام ورثا ء بالغ ہوں ۔

وصیت نمبر2  صرف بیٹیوں کے لیے ہے اس لیے مذکورہ پلاٹ میں تمام وارثوں کی رضامندی  سے وصیت جاری کی جاسکتی ہے بشرطیکہ تمام ورثاء بالغ ہوں ۔

وصیت نمبر3 صرف بیٹوں کے لیے ہے اس لیے مکان مذکور میں تما م بیٹوں کی رضامندی سے وصیت جاری کی جاسکتی ہے بشرطیکہ تمام ورثاء بالغ ہوں ۔

وصیت نمبر4چونکہ ورثاء کے غیر کے لیے کی ہوئی ہےاس لیے اس میں  وصیت  صرف ایک تہائی مال میں نافذ  ہوگی ۔

(2)درست ہوگا۔

نوٹ: آدمی صرف اپنے مال کی وصیت کر سکتا ہے ،لہذا ٓ پ کے والد صاحب نے  آپ کی والدہ کی ملکیتی چیزوں کے بارے میں جو وصیت کی ہے وہ درست نہیں ۔البتہ اگر آپ کی والدہ چاہیں تو وہ خود وصیت کرسکتی ہیں۔

(1)بدائع الصنائع (7/ 385) میں ہے:وأما بيان حكم الوصية  فالوصية في الأصل نوعان وصية بالمال ووصية بفعل… أما الوصية بالمال فحكمها ثبوت الملك في المال الموصي به للموصى له والمال قد يكون عينا وقد يكون منفعة ويتعلق بالملك في كل واحد منهما.(1)بدائع الصنائع (7/ 338) میں ہے: ولو أوصى لبعض ورثته فأجاز الباقون جازت الوصية لأن امتناع الجواز كان لحقهم لما يلحقهم من الأذى والوحشة بإيثار البعض ولا يوجد ذلك عند الإجازة وفي بعض الروايات عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة.(1)رد المحتار(10/385) میں ہے:وتجوز بالثلث للاجنبي عند عدم المانع ( وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته )( قوله لا الزيادة عليه إلخ )فإذا أوصى بما زاد على الثلث ولم يكن إلاوارث يرد عليه وأجازها، فالبقية له وإن أجاز من لا يرد عليه ففرضه في البقية….( قوله إلا أن تجيز ورثته إلخ ) أي بعد العلم بما أوصى به أما إذا علموا أنه أوصى بوصايا ولا يعلمون ما أوصى به ، فقالوا أجزنا ذلك لا تصح إجازتهم خانية عن المنتقى : ونقل السائحاني عن المقدسي إذا أجاز بعض الورثة جاز عليه بقدر حصته لو أجازت كل الورثة ، حتى لو أوصى لرجل بالنصف ، وأجاز أحد وارثين مستويين كان للمجيز الربع ولرفيقه الثلث وللوصي له الثلث الأصلي ونصف السدس من قبل المجيز ا هـ في غاية البيان .

(2)آپ کے مسائل اور ان کا حل(7/508)میں:سوال:وصیت کس طرح کی جائے اور کتنے مال کی؟جواب: یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال مساجد و مدارس میں دیدیا جائے۔        

وصیت صرف ایک تہائی مال میں جائز ہے، اس سے زیادہ کی وصیت وارثوں کی اجازت کے بغیر صحیح نہیں، اگر کسی نے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کی تو تہائی مال میں تو وصیت نافذ ہوگی، اس سے زیادہ میں وارثوں کی اجازت کے بغیر نافذ نہیں ہوگی۔

(2)درر الحكام شرح مجلة الأحكام (3/ 20) میں ہے:الخلاصة:للشريك أن يتصرف بجميع أنواع التصرف من التصرفات المضرة وغير المضرة بإذن شريكه الصريح.النوع الثاني الإذن دلالة وهو في التصرفات الآتية:( أولا )في السكنى وتوابعها ….لكن لا يجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك بالإذن دلالة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved