• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)میراث کی صورت (2) زندگی میں بعض ورثاء کو کچھ دے دینے سے میراث میں ان کا حق ختم نہیں ہوتا

استفتاء

میرا نام**(علاقہ تلمبہ ) ہے ہم کل تین بھائی اور تین بہنیں ہیں  اور ہماری والدہ ہمارے  والد صاحب کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو  گئی تھی۔2015 میں میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ تم نوکری چھوڑ دو میں زمین سیل کر  دیتا  ہوں تم اپنا کاروبار شروع  کردو انہوں نے 1.5ایکڑزمین سیل کی جس میں سے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی ** کو  270000روپےدیے اسی دوران میری بڑی ہمشیرہ اپنا گھر تعمیر کر رہی تھی تو میرے والد صاحب نےان کوبھی  800000روپےدیے (جس کے بارے میں اس ہمشیرہ کا یہ کہنا ہے کہ والد صاحب نے مجھے یہ کہا تھا کہ تمہیں چو نکہ اس وقت مکان کی تعمیر کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے اس لئے میں آپ کو آپ کے حصےمیں سے یہ رقم دے رہا ہوں بعد میں  جب  میں خود  اپنی زندگی میں جائداد  تقسیم کروں  یا میرے مرنے کے بعد تم خود تقسیم کرو تو تمہیں صرف اتنا حصہ مزید ملے گا جو اس کے علاوہ تمہارا بنتا ہوگا   )اس کے تین ماہ بعد والد صاحب  کا وصال ہوگیا اب چار ایکڑ زمین اور ایک عدد مکان  تلمبہ  میں موجود ہےاگر ہم ان کو سیل کرتے ہیں :

1-تو کیا ہم تین بہن ،بھائیوں کوکم  رقم لینی ہوگی  موجودہ رقم سے؟ یا ہمیں بھی برابر حصہ ملے گا  ؟

2-نیز ہر وارث کو کتنا حصہ ملے گا ؟شرعی  طور پر اس کا حل عنایت فرما دیں شکریہ

وضاحت مطلوب ہے: 1-والد صاحب نے یہ رقم آپ دونوں بھائیوں  کو بطورہدیہ دی تھی ؟یا   بطور   حصہ کے دی   تھی؟

2-دوسرے ورثاء کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے؟

جواب وضاحت :1- مجھے تو والد صاحب نے یہ کہا تھا کہ تم نوکری چھوڑ دو میں زمین سیل کر دیتا  ہوں تم اپنا کاروبار شروع  کرواور دوسر ے بھائی کواس وقت پیسوں کی   ضرورت تھی تو والد صاحب نے انہیں بھی دے دیے۔

2-دوسرے ورثاء   کہتے ہیں  کہ  شرعا جتنا  تمہارا  جائیداد میں حصہ بنتا ہے وہ  لے لو۔

نوٹ :تمام ورثاء  سے فون پر ہمارا رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم سوال میں دی گئی تفصیل سے  متفق ہیں مزید یہ کہ جس بیٹی  کو والد صاحب نے اپنی زندگی میں 8 لاکھ روپے دیے تھے انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے والد صاحب نے   کہا تھا کہ میں تمہیں یہ رقم تمہارے حصے میں سے دے رہا ہوں بعد میں  جب  میں خود  اپنی زندگی میں جائداد  تقسیم کروں  یا میرے مرنے کے بعد تم خود تقسیم کرو تو تمہیں   صرف اتنا حصہ مزید ملے گا جو اس کے علاوہ تمہارا بنتا ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-مذکورہ صورت میں والد صاحب نے اپنی زندگی میں  جو رقم اپنے دو بیٹوں کو دی تھی اگر تووہ  بطور ہدیہ دی تھی تو وہ انہیں کی ہے اس میں دیگر ورثاء کا حصہ نہیں ہے اور اس  رقم کے لینے کی وجہ سے  میراث میں بھی ان دو بیٹوں کا  حصہ کم نہ ہو گا اور اگروالد نے  وہ رقم بطورقرض کے دی تھی تو وہ ترکہ کا  حصہ ہی سمجھی جائےگی لہذااب ان دو بیٹوں کو اتنی رقم حصہ میں سے کم ملے گی    لیکن چونکہ والد صاحب کی طرف سے اس بارے میں کوئی تصریح   نہیں ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ اس رقم کو قرض ہی  شمار کیا جائے اور ترکہ  کا حصہ سمجھا جائے البتہ والد نے جو آٹھ لاکھ روپےایک بیٹی کو دیے تھے اس کے بارے میں چونکہ بیٹی خود یہ کہہ رہی ہے کہ والد صاحب نے مجھے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں یہ رقم تمہارے حصے میں سے دے رہا ہوں بعد میں  جب  میں خود  اپنی زندگی میں جائداد  تقسیم کروں  گا یا میرے مرنے کے بعد تم خود تقسیم کرو تو تمہیں  صرف اتنا حصہ مزید ملے گا جو اس کے علاوہ تمہارا بنتا ہوگا ،اس لیے یہ رقم گویا والد صاحب نے بیٹی کو قرض دی تھی، اور   یہ رقم ترکہ کا حصہ ہی سمجھی جائےگی ۔لہذا اگر 8لاکھ روپے ان کے حصے کے برابر ہو ں تو بیٹی کو مزید کچھ نہیں ملے گا ،اور اگر کمی پیشی ہو توآپس کی رضامندی سے معاملے کو حل کیا جائے ۔

2- مرحوم کے کل ترکہ کے (جس میں  وہ دو لاکھ ستر ہزار روپےبھی شامل ہیں جو والد نے اپنے دوبیٹوں کو دیے تھے وہ آٹھ لاکھ روپے بھی شامل ہیں جو والد نے اپنی بیٹی کو دیے تھے)9 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 2-2 حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو ملیں گے اور 1-1حصہ مرحوم کی ہر بیٹی کو ملے گا ۔صورت تقسیم درج ذیل ہے:

        9                                                                     

3بیٹے3بیٹیاں
عصبہ
63
2+2+21+1+1

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved