• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

وصیت ثلث میں جاری ہوتی ہے

استفتاء

ایک عورت جس کی شادی کے بعد اولاد نہ ہوئی۔ اس نے فوت ہونے سے کچھ عرصہ قبل وصیت کی کہ میرا تمام مال صدقہ جاریہ  کے لیے، مسجد و مدرسہ میں دے دینا۔ از روئے شرع کیا وصیت کے مطابق اس کے تمام مال کو صدقہ کیا جاسکتا ہے ؟ نیز نکاح کے وقت اس کے خاوند نے اس کے نام ایک  مکان بھی کیا تھا۔ کیا ورثہ میں وہ مکان  بھی شامل   ہوگا؟ اس کے وارثان میں خاوند، دو بھائی، اور ایک بہن موجود ہیں۔ شریعت کے مطابق ورثہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟

نوٹ: خاوند نے زبانی بھی کہا تھا  کہ یہ مکان آپ کا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سب وارث عاقل بالغ ہو ں اور بخوشی اجازت دیں تو تمام مال کو وصیت میں  صدقہ کیا جائے گا۔ ورنہ کل مال کا ایک تہائی وصیت میں صدقہ کیا جائے گا۔ اور باقی کو دس حصوں میں تقسیم کر کے پانچ حصے شوہر کو اور دو ، دو حصے ہر بھائی کو او ر ایک حصہ بہن کو ملے گا۔ صورت تقسیم یہ ہے:

2×5=10                                                        

شوہر                  بھائی               بھائی               بہن

5×1                                    5×1

5                                        5

5                     2                 2                 1

جو مکان شوہر نے بیوی کے نام کروایا تھا، اگر اس کا قبضہ بھی بیوی کو دے دیا تھا تو وہ بھی میراث میں شامل ہوگا، ورنہ شامل نہ ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved