• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

وصیت واتفاق کی صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک دوست نے سوال پوچھا ہے

1- وہ اپنی آمدنی میں سے 3/1 حصہ انفاق فی سبیل اللہ کی نیت سے سیدنا وقاص رضی اللہ عنہ کی مسلم شریف کی روایت کی روشنی میں کہ زیادہ سےزیادہ3/1 مال میں سے خرچ کیا جا سکتا ہے  ہر ماہ علیحدہ کر لیتا ہے

2 -اس رقم کے دو حصے کرتا ہے 80 فیصد انفاق فی سبیل اللہ اور 20 فیصد میں سے غریب اور ضرورت مند لوگوں کی ماہانہ امداد، قرض حسنہ غریب بچیوں کی شادی وغیرہ پر خرچ کرتا ہے۔

4۔  وہ اس کا باقاعدہ آمدن اور اخراجات کا حساب کتاب بھی رکھتا ہے تاکہ وہ رقم کہیں اس کی اپنی رقم میں نہ مل جائے۔

5 -اس نے اپنی بیوی کو بھی وصیت کر دی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اگر رقم بچ گئی ہے تو اس کو اسی طرح تقسیم کرتے رہیں اور گھر والوں کا اس پر کوئی حق نہیں ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ بیان کردہ تمام امور کا ایسا کرنا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟

اسے خدشہ ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اگر بیوی اور بچوں نے ایسا نہ کیا تو کہیں اس کے گھر والوں پراللہ تعالی کی طرف سے دنیا اور آخرت میں عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ طریقے پر اپنی آمدن کا 3/1حصہ راہ خدا میں خرچ کرنے کی نیت ایک اچھی نیت ہے تاہم اس نیت کی وجہ سے سے سائل کے ذمے شرعا یہ صدقہ یا خرچ کرنا لازم نہیں ہوا ۔چنانچہ سائل خود اپنی زندگی میں  اس مقدار میں کسی وجہ سے کمی بیشی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔

باقی رہا یہ کہ سائل کے فوت ہونے کے بعد اس مد میں جمع شدہ مال کی حیثیت کیا ہو گی؟اگر سائل وصیت کرے جیسا کہ سوال میں ہے اور وہ مال اس کے چھوڑے کے کل ترکہ کی ایک تہائی 3/1سے کم ہر تو یہ وصیت معتبر ہو گی اور ورثاء کے ذمے لازم ہوگا کہ اس مال کو متعلقہ مصرف میں خرچ کریں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved