- فتوی نمبر: 1-298
- تاریخ: 28 نومبر 2007
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
یہ وصیت جو میں لکھ رہی ہوں یہ میں اپنی مرضی یا کسی دباؤں میں نہیں لکھ رہی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس میں خیر و برکت ہے انسان بہت سی شر سے بچ جاتا ہے یہ دنیا فانی ہے اس لیے انسان کوشش کرے کہ جو فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرنا ہے۔
یہ کوٹھی 240۔ پی ماڈل ٹاؤن جس میں میں اور آپ دونوں بھائی رہ رہے ہیں یہ میں اپنے تینوں بچوں منصور،فریال، مسرور کے نام کرتی ہوں۔ اس کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق ہوگی یعنی اگر 10 روپے لڑکے کے ہیں تو 5 پانچ روپے لڑکی کے ہیں۔ میری زندگی کے بعد ایک سال تک دونوں بھائی رہ سکتے ہیں اس کے بعد اگر کوئی رہنا چاہے تو دوسروں کا حصہ دے گا اگر دونوں بھائی رہنا چاہیں تو اس گھر کی قیمت کے مطابق فریال کا حصہ دینے کے ذمہ دار ہوں گے اگر نہیں دے سکتے تو اس کو بیچنا ہوگا جس کو بھی رقم ملے گی یکمشت ملے گی۔ گھر میں جو سامان ہے اس کے بھی تین حصے ہوں گے نیچے کے چار اے سی میں سے فریال کے دو مسرور کے، نیچے کے دو فریج میں سے ایک منصور کا ایک مسرور کا، جو مسرور اور منصور نے اپنے کمائی سے چیزیں خریدی ہیں وہ لے سکتے ہیں مگر فریال کے ساتھ معاملہ نرم رکھا جائے۔ اگر آپس کی خوش اسلوبی سے جس میں حق تلفی نہ ہو۔۔۔ مل کر سکتے ہیں۔ جو چیزیں نہیں چاہیں ان کو خدا واسطے دیا جائے اس کا معاوضہ نہ لیں تو بہتر ہے۔
میرا پلاٹ جو کہ آرمی ویلفیر سوسائٹی میں ہے اول تو انشاء اللہ تعالی اس کو میں اپنے ہاتھوں سے سیل کرنا چاہتی ہوں مگر چونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں نامعلوم خدا کو کیا منظور ہے۔ اگر میری زندگی کے بعد سیل کرتے ہیں تو اس کے دو حصے ہوں گے یعنی رقم کے ایک حصے کے آپ تینوں بہن بھائی حق دار ہوں گے۔ تینوں برابر برابر حصہ ہوگا۔ باقی جو آدمی رقم ہوگی اس کے چار حصے ہوں گے ایک حصہ مسجد کا، زکوٰة کا، نمازوں کا، چوتھا روزوں کا، یہ ساری رقم اویس ***کو یا صہیب ****کو دی جائے گی اور میری نصیحت کے مطابق ان کو بتانا ہوگا کہ ایک حصہ مسجد کا باقی زکوٰة نمازوں کا فدیہ روزوں کا فدیہ۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کو کہاں کہاں خرچ کرنا ہے۔ یہ میری وصیت ہے آپ اس میں رد وبدل نہیں کرسکتے۔ جو کام ہوگا شریعت کے مطابق ہوگا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اولین بیٹا عالم دین ہے آپ ان سے مشورہ لے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعد وہ آپ کوصحیح مشورہ دیں گے۔ جیسا کہ ایک ڈاکٹر ہی صحیح مشورہ دے سکتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ آپ لوگوں کو کبھی مشکل کا سامنا کرنا پڑے۔ مگر یہ دنیا ہے اس میں زیادہ مسائل ہی مسائل ہیں مگر جس نے اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیا ہے اور اس کے خم کے مطابق چلا انشاء اللہ اس کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی بن گئی یہ دنیا فانی ہے نا پائیدار ہے ہم نے ایک دن اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور ہر چیز کا حساب دینا ہے آپ تینوں بہن بھائیوں کو اللہ اتفاق اور محبت سے رکھے خدا کرے کہ آپ سے اللہ پاک ایسے ایسے کام کروا لیں کہ آپ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے اور میری بھی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے آپ لوگوں میں صلاحیت ہے اسی میں دین و دنیا کی کامیابی ہے۔
کیا مذکورہ وصیت نامہ شریعت کی رو سے درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ یہ وصیت کی دونوں بھائی ترکہ کی کوٹھی میں ایک سال تک رہ سکتے ہیں یہ بہن کی رضامندی پر موقوف ہے اگر بہن کی رضامندی ہو تو رہ سکتے ہیں اور اگر رضامندی نہ ہو تو فوری تقسیم ضروری ہوگی۔
2۔ نیز گھر کے سامان کے بارے میں یہ وصیت کہ وہ برابر تقسیم ہوگا درست نہیں۔ اس سامان میں سے بھی دو دو حصے لڑکوں کو ملیں گے اور ایک حصہ لڑکی کو ملے گا۔ اگر ماں کی خوشی کو سامنے رکھ کر بھائی بہن کو برابر دیدیں تو یہ بھی جائز ہے۔
3۔ ویلفیر سوسائٹی کے پلاٹ کے بارے میں یہ وصیت کہ اس کے آدھے حصے کے چار حصے کر کے ایک مسجد کا، ایک زکوٰة کا، ایک نمازوں کا، ایک روزوں کا۔۔۔۔۔۔ اگر یہ وصیت کل ترکہ کے ایک تہائی کے برابر یا اس سے کم ہے تو جائز ہے ورنہ ورثاء کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں البتہ ورثاء کی رضامندی سے ایک تہائی سے زائد میں بھی جائز ہے بشرطیکہ سب ورثاء بالغ ہوں۔
نیز دوسرے آدھے حصے کے بارے میں یہ وصیت کہ وہ آدھا حصہ تینوں بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگا یہ بھی درست نہیں بلکہ اس میں دو دو حصے لڑکوں کے اور ایک حصہ لڑکی کا ہوگا۔ البتہ بھائی اگر راضی ہوں تو بہن کو برابر حصہ دے سکتے ہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved