• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت

استفتاء

ایک شخص کے چار بیٹے تھے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں جبکہ چاروں بیٹے فوت ہوچکے ہیں اور ان کی بیویاں بھی فوت ہوچکی ہیں۔

۱۔*** (مرحوم) کنوارہ تھا جو بہت پہلے وفات پاچکا ہے۔

۲۔ ***(مرحوم) صاحب اولاد تھا جن کا صرف ایک بیٹا خالد حیات ہے۔ شادی شدہ ہے۔

۳۔ *** ( مرحوم) صاحب اولاد تھا اس کے پانچ بیٹے تھے جو کہ حیات ہیں *** وغیرہ ۔

۴۔ *** مرحوم صاحب اولاد تھا جن کا صرف ایک بیٹا *** تھا جو کہ ابھی فوت ہوا ہے۔ یہ تمام بھائی اپنے علیحدہ علیحدہ مکانوں میں رہائش پذیر تھے اور اپنی اپنی محنت مزدوری کرتے تھے۔ اب ان کی اولاد اپنے والدین کے گھروں میں آباد ہیں۔ نمبر4 والے بیٹے *** مرحوم کا اکلوتا بیٹا *** جو کہ نابینا تھا اپنے ماں باپ کے ایک کمرہ کے مکان میں رہائش پذیر تھا جو کہ حال ہی میں فوت ہوا ہے۔

حال میں فوت ہونے والے *** مرحوم نابینا والد *** نے اپنی زندگی میں ہی ایک کمرہ والے مکان کی وصیت کی تھی اور اس کو بورڈ پر تحریر لکھ دی تھی کہ میرے مرنے کے بعد اس مکان کو میرا چچا زاد بھائی *** فروخت کرکے اس رقم کو محلہ میں واقع دو مساجد مکی مسجد اور جامع مسجد شہیداں جو کہ زیر تعمیر ہے نصف نصف رقم ادا کرنے کا پابند ہوگا تاکہ بعد فوتگی کے کوئی وارث پیدا نہ ہوجائے۔ اس بات کا علم اس کے تمام رشتہ داروں اور محلہ داروں کو ہوگیا تھا۔

*** والد *** مرحومین کے ایک کمرہ مکان اور آدھا مرلہ تقریباً  اسی کے چچا زاد بھائی *** نے دونوں مساجد کی انتظامیہ اور محلہ داران کے رو برو مبلغ پانچ لاکھ میں خرید کر کے نصف رقم مبلغ ڈھائی لاکھ کیش نقد کی صورت میں زیر تعمیر جامع مسجد شہیداں کی انتظامیہ کے روبرو گواہان ادا کردی ہے تاکہ یہ رقم مسجد میں لگا کر صدقہ جاریہ شروع ہوسکے۔ جبکہ بقیہ رقم مبلغ ڈھائی لاکھ جو کہ مکی مسجد کو دو ماہ میں نقد کیش کی صورت ادا کرنے کا وعدہ تحریراً لکھ دیا ہے۔

نوٹ: اس مکان کی رقم کے سلسلہ میں کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ایک تہائی حصہ دونوں مساجد کو جبکہ دو تہائی حصہ اس کے چچا زاد بھائیوں چھ مرد موجود میں تقسیم ہونا تھا جبکہ اس کے چچا زاد بھائیوں میں سے کسی نے پہلے سے کوئی حصہ لینے کا مطالبہ نہ کیا ہے۔ مرحوم عبدالجبار نابینا ہونے اور بھائیوں کی جانب سے کوئی دیکھ بھال نہ کرنے کی بناء پر مقامی غریب نواز ہوٹل سے تین وقت کا کھانا مفت آتا تھا اور محلہ کے لوگوں کی مالی مدد صدقہ، فطرانہ وغیرہ ہے۔ اور دیگر ضروریات پوری ہوتی تھی، مرحوم *** کو صرف اور صرف اپنے چچا زاد بھائی *** پر بھروسہ تھا وہی تھوڑی بہت مدد دیکھ بھال بھی کرتا تھا اسی لیے مرحوم نے اپنے چچا زاد بھائی *** کو مکان فروخت کرکے نصف نصف رقم دونوں مساجد کو دینے کی وصیت کی تھی۔ اپنے اسی چچا زاد بھائی ***  کو قرضہ حسنہ کے طور پر تقریباً پچاس ساٹھ ہزار روپے بھی دیے تھے جو کہ *** نے از خود بتایا ہے کہ وہ جلد یہ قرضہ حسنہ بھی مرحومین عبدالجبار کے لیے صدقہ جاریہ کے کام میں لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اگر حصہ بنتا ہے تو کتنا کتنا ہوگا؟ جبکہ ڈھائی لاکھ کی رقم مسجد شہیداں زیر تعمیر ہے اس کی تعمیر میں خرچ ہوچکی ہیں۔ بقیہ ڈھائی لاکھ کی رقم مکی مسجد کو ملنا باقی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں ایک تہائی مکان ( کمرہ) یا مکان کی قیمت میں وصیت معتبر ہوگی البتہ اگر تمام وارث راضی ہوں تو کل میں بھی جائز ہے۔

۲۔ اور جو پچاس ساٹھ ہزار روپے *** کے پاس ہیں اس میں تمام وارث شریک ہیں البتہ اگر سب وارث اپنی رضامندی سے کسی خیر کے کام میں لگانا چاہیں تو یہ بھی ٹھیک ہے۔

و تجوز بالثلث للأجنبي عند عدم المانع و إن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته. (6/ 650) فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved