• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت وتقسیم میراث کامسئلہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضرات علمائے کرام کیا ارشاد فرماتے ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں کہ ایک صاحب جو 14 مرلہ مکان کی ملکیت کا مالک ہے اور شادی شدہ ہیں لیکن ان کی اپنی کوئی اولاد ،ماں باپ اور بہن بھائی نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب شدید بیمار ہوئے تو موت اور زندگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ مکان کی آدھی ملکیت بیوی کے نام کردی جائے ،چنانچہ زوجین میں باہمی مشورے کے بعد مکان کی سات مرلہ ملکیت بیوی کے نام کردی گئی، مگر معاملات اسی طرح شوہر کے اختیار میں رہے جیسا کہ اس سے قبل چل رہے تھے اور اس سلسلے میں بیوی نے بھی کسی قسم کا کوئی اعتراض کیا نہ ہی سوال اٹھایا ،معاملات احسن طریقے سے چل رہے تھے، اس دوران اللہ تعالی نے مجھے صحتیابی عطا فرمائی لیکن مکان نام کرنے کے تقریبا تین سال کے بعد میری بیگم کینسر کا شکار ہو کر شدید بیمار ہوگئی اور عرصہ تین سال بیماری کی حالت میں گزرنے کے بعد انتقال فرما گئیں، بیماری کی شدت کے دوران جب کہ وہ اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو گئی تو انہوں نے بھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےمیری طرح فیصلہ کیا کہ مکان کی ملکیت واپس میرے نام اور ہماری ایک لے پالک بچی (جس کو ہم نے لے کر پالا تھا اور اس کے بھی کسی والی وارث کا کوئی اتا پتا نہیں) کے نام برابر کردی جائے۔

جس کا ذکر  گا ہے بگاہےانہوں نے مختلف میل جول کے افراد سے بھی کیا، مزید برآں متعدد دفعہ میرے خراب کاروباری حالات کو دیکھتے ہوئے بھی وہ بار بار اصرار کرتی رہیں کہ آپ مکان کی ملکیت واپس لے کر اس کو اپنی کاروباری ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال یا فروخت کر لیں جو کہ پیسوں کی کمی اور دقت کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا۔نیز ان کی زندگی نےبھی مزید وفا نہ کی اور واپسی ملکیت مکان کے قانونی تقاضے پورے کرنے سے قبل ہی ان کا انتقال ہوگیا۔یہ مکان میری ذاتی محنت اور کمائی سے بنایا ہوا ہے ،اس میں نہ کوئی وراثت کا حصہ ہے اور نہ ہی کسی اور کا کوئی حق و سرمایہ۔اب جبکہ میری بیوی کا انتقال ہوگیا ہے تو میری بیوی کی بہن ان کےحصے کی دعویدار بن رہی ہیں، اس سلسلے میں میری بیوی کی جو وصیت ہمارے لے پالک بیٹی سے متعلق تھی اس سے اور بیٹی کی شادی کے لیے ہم نے تقریبا 35 تولے سونا بطور امانت ان کے پاس رکھا ہوا تھا اس سے بھی منکر ہے اور اس کو( لے پالک) بیٹی کو کسی قسم کا سونا یاحصہ دینے کو تیار نہیں بلکہ ہر چیز کی وراثت کی خود دعویدار ہیں۔

مکرمی چونکہ میں خود بیمار رہتا ہوں اور موت و زندگی کا پتہ نہیں، اس لئے میری خواہش ہے قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی اس لے پالک بیٹی اور اس کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی زندگی میں ہی تمام معاملات حل کر جاؤں اور اس مکان کی ملکیت اور امانتا رکھا ہوا سونا اپنی بیٹی کے لیے محفوظ کر دوں جیسا کہ ہم دونوں میاں بیوی کی خواہش تھی، تاکہ میرے بعد ہماری اس لے پالک بیٹی کو کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے،میری خواہش ہے کہ مجھ سے قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی ایسا فیصلہ نا انصافی یا عمل سرزد نہ ہو جس کے لیے کل میں اللہ کی بارگاہ میں جواب دے ہوں۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں جائے جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مکان کا آدھا حصہ (7مرلے) اگرچہ مرض الوفات میں بیوی کے نام کروایا گیا تھا جو کہ بمنزلہ وصیت کے تھا  اور بیوی چونکہ خود وارث ہے، اس لیے یہ وصیت معتبر نہ تھی لیکن آپ اس بیماری سے صحت یاب ہوگئے تھے، اس لیے اس نام کروانے کو ہدیہ سمجھا جائے گا،اور ہدیہ کے درست ہونے کے لئے اگرچہ قبضہ ضروری ہے لیکن چونکہ ہماری تحقیق میں قانونی کاغذات میں ملکیت کا انتقال بھی قبضہ کے قائم مقام ہے۔

نیز امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک ہدیہ کے درست ہونے کے لئے قبضہ شرط بھی نہیں ہے اور موجودہ دور میں میں خاص طورپررہائشی مکانوں میں عملی قبضہ دینا خاصا دشوار عمل ہے، اس لئے ان کے قول کو لینے کی گنجائش ہے، لہذا یہ ہدیہ درست ہوا، لہذا س آدھے مکان کا ایک تہائی (3/1) حصہ بطور وصیت کے لے پالک بیٹی کو ملےگا،اگر وصیت ایک تہائی(3/1) یا اس سے زائد تھی اور اگر ایک تہائی(3/1) سے کم تھی تو وصیت کے بقدرلے پالک بیٹی کو ملےگا باقی میں آدھا حصہ آپ کو اور آدھا حصہ آپ کی بیوی کی بہن کو ملے گا،(بشرطیکہ آپ کی بیوی کا آپ دونوں کے علاوہ کوئی اور وارث نہ ہو) البتہ مکان کا آدھا حصہ یعنی سات مرلہ جو آپ کے اپنے نام ہیں اور جو بیوی کی طرف سے آپ کو وراثتی حصہ ملے اسکا ایک تہائی(3/1) حصہ آپ لے پالک بیٹی کے لیے وصیت کر سکتے ہیں۔

نوٹ: آپ اور آپ کی بیوی کی طرف سے بیوی کی بہن کے پاس جو سونا بطور امانت رکھوایا ہوا ہے وہ مکان میں بیوی کی بہن کے حصے  کے برابر یا زیادہ ہو تو آپ اس سونے کے عوض اس کا مکان کا حصہ لے سکتے ہیں اور اگر مکان کا حصہ زیادہ کا بنتا ہے تو اپنےسونے کےبقدر مکان کا حصہ رکھ سکتے ہیں، اس سے زائد بیوی کی بہن کو دینا ہوگا۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved