- فتوی نمبر: 2-26
- تاریخ: 19 اپریل 2004
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
بعد سلام کے عرض ہے کہ میں میراث کا مسئلہ معلوم کرنا چاہتاہوں۔صورت مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے کچھ زمین چھوڑی ہے اور یہ وصیت کی تھی کہ کل مال کا تہائی مدرسہ کو دیا جائے۔
وارثین کی تفصیل یہ ہے کہ ہم چھ بھائی ہیں اور دوبہنیں اور ایک والدہ۔ ایک بہن کی وفات والد کی وفات کے بعد ہوئی ہے اور دوسری بہن زندہ ہیں۔
اب متوفیہ بہن کی ایک بیٹی ہے اور شوہر بھی زندہ ہے۔ اب وارثوں کے کتنے کتنے حصے بنتے ہیں۔ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں۔ نیز متوفیہ کی والدہ اور چھ بھائی اور ایک بہن بھی حیات ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صورت مسئولہ میں مرحوم کے حقوق مقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات کے بعد اگر قرض ہوتو ادائیگی قرض کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہوتو ایک ثلث سے وصیت پورا کرنے کے بعد مابقیہ کل ترکہ کو 17472 حصوں میں تقسیم کرکے 2366حصے مرحوم کی بیوی کو اور 2198،2198 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 1099حصے مرحوم کی زندہ بیٹی اور 546حصے نواسی کو اور 273حصے داماد کو ملیں گے۔صورت تقسیم یہ ہے:
8×14=112×156=17 مافی الید7
بیٹی
7 1092 |
بیوی 6 بیٹے بیٹی
1×14 7×14
14 98
14 84 7
1092 2184+ 2184+2184+ 2184 2184
12×13=156×7=1092
والدہ شوہر بیٹی بھائی بھائی بھائی بھائی بھائی بھائی بہن
1×13 6×13 3×13 2×13
13 78 39 26
1 2 2 2 2 2 2 78 39 26
7 14 14 14 14 14 14 546 273 182
© Copyright 2024, All Rights Reserved