• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

وصیت ایک تہائی میں جاری ہوتی ہے

استفتاء

1۔ ایک خاتون کا چند دن قبل انتقال ہوا۔ اور انہوں نے ترکہ میں ایک رہائشی مکان اور ایک پلاٹ کے علاوہ چند کپڑے استعمال کے، چند برتن اور گھریلو سامان  اور زیور اور کچھ نقدی چھوڑی۔

ان خاتون نے اپنی وفات سے تقریباً ایک برس قبل اپنی بیٹی سے بھائی کی موجودگی میں یہ کہا” یہ  رہائشی مکان ( جو ان کی ملک میں تھا ) جب بھی آپ فروخت کروگی تو اس کی نصف قیمت مدرسہ میں دے دینا تاکہ ہمارے لیے صدقہ جاریہ بن جائے”۔

اور اس پلاٹ کے بارے میں انہوں نے  اپنی بیٹی اور بھائی کے سامنے کہا کہ یہ پلاٹ میں نے بھائی کے لیے رکھا ہے۔

ان کی اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ آیا یہ الفاظ وصیت شمار ہوں گے یا نہیں؟

2۔ انہی خاتون مذکورہ کے ورثاء میں ان کی ایک بیٹی، ایک سگے بھائی اور دو سگی بہنیں ہیں۔ ان کے والدین پہلے وفات پا چکے ہیں اور خاوند کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چچا زاد بہن، بھائی بھی ہیں۔

جواب طلب امر یہ ہے کہ ان کی وراثت میں کس کا کتنا حصہ ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں خاتون کی اپنے رہائشی مکان کے بارے میں کی گئی ہدایت شرعاً وصیت ہے، اور وصیت کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس کو کل ترکے کے تیسرے حصے میں سے پورا کیا جائے۔ نیز پلاٹ کے بارے میں کہے گئے ان کے الفاظ وصیت نہیں۔

و في الشامية: و ركنها قوله أوصيت بكذا لفلان وما يجري مجراه من الألفاظ المستعملة. (450/ 6)

و شرائطها كون الموصي أهلا للتمليك …. وكون الموصی له  حياً وقتها، و كونه غير وارث …. و أن يكون بمقدار الثلث.

2۔ وصیت اور اگر قرضے ہوں تو ان کی ادائیگی کے بعد باقی ترکے کے آٹھ حصے کر کے  4 حصے بیٹی کو، 2 بھائی کو  اور ایک ایک حصہ ہر بہن کو دیا جائے۔صورت تقسیم یہ ہے:

2×4=8                    

بیٹی           بھائی     2 بہن

4×1

4            2       1+1                                          فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved