- فتوی نمبر: 31-08
- تاریخ: 15 اپریل 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وصیت کے احکام
استفتاء
1۔وصیت لکھنے کے بارے میں دین و شر یعت کا کیا حکم ہے؟
2۔کیا وصیت میں امانت کا بھی ذکر کرنا چاہیے ؟
برائے مہربانی رہنمائی فرمادیجئے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔عام حالات میں تو وصیت لکھنا مستحب ہے لیکن اگر کسی کے ذمے حقوق اللہ یا حقو ق العباد میں سے کوئی حق ہو مثلا قضا نمازیں یا قضا روزے وغیرہ ذمے میں ہوں یا کسی کا کوئی لین دین ذمے میں ہو تو ان حالات میں وصیت کرنا واجب ہے خواہ یہ وصیت زبانی کی جائے یا لکھ کر کی جائے۔
2۔وصیت میں امانت کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
تنوير الابصار مع در مختار (10/336)میں ہے:
(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) ….(وهي) على ما في المجتبى أربعة أقسام (واجبة بالزكاة) والكفارة (و) فدية (الصيام والصلاة التي فرط فيها) ومباحة لغني ومكروهة لأهل فسوق (وإلا فمستحبة) ولا تجب للوالدين والأقربين لأن آية البقرة منسوخة بآية النساء
رد المحتار (10/336)میں ہے:
(قوله وهي على ما في المجتبى) عبارته والوصية أربعة أقسام واجبة كالوصية برد الودائع والديون المجهولة، ومستحبة كالوصية بالكفارات وفدية الصلاة والصيام ونحوها ومباحة كالوصية للأغنياء من الأجانب والأقارب، ومكروهة كالوصية لأهل الفسوق والمعاصي اهـ وفيه تأمل لما قاله في البدائع الوصية بما عليه من الفرائض والواجبات كالحج والزكاة والكفارات واجبة اهـ شرنبلالية. ومشى الزيلعي على ما في البدائع، وفي المواهب تجب على مديون بما عليه لله تعالى أو للعباد، وهذا ما مشى عليه المصنف خلافا لما في المجتبى من التفرقة بين حقوقه تعالى، وحقوق العباد وما مر من سقوط ما وجب لحقه تعالى بالموت لا يدل على عدم الوجوب لأن المراد سقوط أدائها، وإلا فهي في ذمته فقول الشارح على ما في المجتبى: أي من حيث التقسيم إلى الأربعة تأمل
عالمگیری(10/3)میں ہے:
الإيصاء في الشرع تمليك مضاف إلى ما بعد الموت يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة، كذا في التبيين أما ركنها فقوله أوصيت بكذا لفلان وأوصيت إلى فلان، كذا في محيط السرخسي والوصية مستحبة هذا إذا لم يكن عليه حق مستحق لله تعالى وإن كان عليه حق مستحق لله تعالى كالزكاة أو الصيام أو الحج أو الصلاة التي فرط فيها فهي واجبة، كذا في التبيين
معارف القرآن(سورۃ البقرۃ ،آیت نمبر: 180)کے تحت ہے:
كتب عليكم اذا حضر احدكم الموت…..
مسئلہ:اس آیت میں ذکر ایک خاص وصیت کا تھا جو مرنے والا اپنے متروکہ مال کے متعلق کرتا تھا جو منسوخ ہوگیا لیکن جس شخص کے ذمے دوسرے لوگوں کے حقوق واجب ہوں یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو تو اس پر ان تمام چیزوں کی ادائیگی کے لئے وصیت واجب ہے ۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے ایک حدیث میں فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کچھ لوگوں کے حقوق ہوں اس پر تین راتیں ایسی نہ گذر نی چاہئیں کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس موجود نہ ہو ۔
مسائل بہشتی زیور(2/492)میں ہے:
اگر کسی کے ذمہ نمازیں یا روزے یا زکوۃ یا قسم و روزہ و غیرہ کا کفارہ باقی رہ گیا ہو اور اتنا مال بھی موجود ہو کہ اس میں سے فدیہ یا زکوۃ یا کفارہ ادا کیا جاسکتا ہو تو مرتے وقت اس کے لیے وصیت کرجانا ضروری اور واجب ہے ۔اور ترکہ کے ایک تہائی میں سے ان کو پورا کیا جائے گا۔اسی طرح اگر کسی کا کچھ قرض ہو یا کوئی امانت اس کے پاس رکھی ہو اس کی وصیت کردینا بھی واجب ہے نہ کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔
اگر کچھ رشتہ دار غریب ہوں جن کو شرع سے کچھ میراث نہ پہنچتی ہو اور اس کے پاس بہت مال و دولت ہے تو ان کو کچھ دلادینا اور وصیت کرجانا مستحب ہے اور باقی اور لوگوں کیلئے وصیت کرنے نہ کرنے کا اختیا ر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved