- فتوی نمبر: 11-49
- تاریخ: 28 جنوری 2018
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرا نام محمد اعظم طارق ہے ،میں ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کا رہائشی ہو ں میں نے میرا ث کی تقسیم سے متعلق مسائل پوچھنے ہیں اور اس مقصد کے تحت میں یہ خط بھیج رہا ہوں۔
صورتحال :میرے والد صاحب جن کا نام حبیب الرحمن تھا ۔15اکتوبر 2011کو فوت ہوگئے ان کو قتل کیا گیا تھا اس کے بعد میرے بڑے چچا اور ماموں نے ملزمان پر کیس کردیا ۔تقریبا ایک سال کیس چلتا رہا اس کے بعد میرے بڑے چچا نے مجھ سے اور میرے گھر والوں سے پوچھے بغیر ملزمان کے رشتے داروں کے ساتھ 30لاکھ روپے کے بدلے راضی نامہ کردیا پھر میں اور میرے گھر والے ان کے پاس فیصلے پر راضی ہو گئے اور ہم نے عدالت میں بیان دے دیئے کہ ہم نے ملزمان کو معاف کردیا اس کے بعد یہ کیس ختم ہوگیاپھر جب میرے چچا ہمیں وہ راضی نامے کی رقم جو کہ 30لاکھ روپے تھی دیتے وقت اس میں کیس کا خرچہ ہوا وہ کاٹ لیا اور اس کے ساتھ ہی ابو کا قرضہ بھی چچا نے اداء کیا تھا وہ بھی چچا نے 30لاکھ میں سے کاٹ لیا اس کے علاوہ میرے والد نے اپنی زندگی میں چچا پر شفعہ کر کے 5لاکھ روپے لیے تھے وہ 5لاکھ بھی چچا نے اس راضی نامے کی رقم میں سے لے لیے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ماموں نے جو کیس پر خرچہ کیا تھا وہ بھی ماموں نے راضی نامے کی رقم میں سے لے لیا اس طرح ہمیں جو راضی نامے کی رقم ملی وہ تقریبا 20لاکھ روپے ملی ۔
ہم کل تین بھائی ،بہن ہیں یعنی میں اور میرا بھائی نعمان طارق اور میری ہمشیرہ مدیحہ طارق ۔میں 23سال کا ہوں جبکہ میرا بھائی18سال کا ہے اور میری ہمشیرہ 28سال کی اور وہ شادی شدہ ہے اس کی شادی 18فروری، 2017میں ہوئی، میری والدہ بھی زندہ ہیں جبکہ میری دادی یعنی ہمارے والد کی ماں ،ابو کے فوت ہونے کے تقریبا دوسال بعد فوت ہوئیں۔میرے دادا تقریبا 2000میں فوت ہو گئے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اپنے بیٹوں میں تقسیم کر دی تھی جبکہ اپنی بیٹیوں کو انہوں نے کوئی حق نہیں دیا تھا یا کوئی حصہ نہیں دیا تھا ۔میرے تین چچا اور دو پھو پھیاں ہیں۔
ہم نے اپنے والد کی جائیداد ابھی تک تقسیم نہیں کی ہے اور میں میرا چھوٹا بھائی میری ہمشیرہ اور میری والدہ مشترکہ طور پر اس جائیداد کو یعنی والد کی جائیداد کو استعمال کرتے رہے ہیں میرے والد کی جائیداد میں ایک ہو ٹل اور دکان بھی ہے جو کرایہ پر ہے اور اس کا کرایہ بھی ہم مشترکہ طور پر استعمال کررہے ہیں اور وہ کرایہ ہی ہمار ی آمدن کا ذریعہ ہے ۔میری ہمشیرہ شادی سے پہلے تک یعنی 18فروری 2017تک ہمارے ساتھ رہی جبکہ شادی کے بعد سے وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہے اور شادی کے بعد وہ کرایہ استعمال نہیں کررہی اس کی شادی اور جہیز کا خرچہ بھی ہم نے کرایہ میں سے ادا کیا جو کہ ہماری آمدن کا ذریعہ ہے ۔ہماری دادی ہمارے چچا کے گھر رہتی تھی ابو کے فوت ہونے کے بعد نہ دادی نے ابو کی جائیداد کے بارے میں کوئی بات کی اور نہ ہم نے دادی سے کوئی بات کی اور ابو کی جائیدا د ہم ہی استعمال کرتے رہے اور ہم نے دادی کو ابو کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں دیا اور نہ کرایہ میں سے کوئی حصہ دیا اور نہ دادی نے مانگا ۔
میرے والد صاحب وصیت میں واضح طور پر لکھ گئے تھے کہ میری ساری جائیدا د میں میرے بچوں اور بیوی کے علاوہ کوئی بھی حصہ دار نہیں ہے ۔کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔اور میری والدہ سے بھی اس بات کا اقرار کرتے رہتے تھے کہ یہ ساری جائیداد بچوں کی ہے اور ان کی بالکل واضح نیت تھی کہ یہ ساری جائیداد بچوں کی ہے اور ان کے کام آئے گی۔ میرے والد کی اپنے بھائیوں سے بنتی بھی نہیں تھی اور ان کے ساتھ جھگڑے بھی چلتے رہتے تھے ۔اب میں اپنے والد کی تمام جائیداد کی شرعا تقسیم چاہتا ہوں اور والد کی تمام میراث کو صحیح صحیح تقسیم کرنا چاہتا ہو ں ۔میری رہنمائی فرمائیے ۔میرے والد کے تجہیز وتکفین کے اخراجات ماموں نے اپنی مرضی سے ادا کیے جبکہ قبر بنانے کا کچھ خرچہ میں نے اداء کیا تھا ۔میرے والد کا قرضہ ہمارے بڑے چچا نے اداء کیا تھا جو کہ راضی نامے کی رقم میں سے چچانے کاٹ لیا تھا جبکہ والد کا کچھ قرضہ میں نے خود بھی ادا کیا ہے میرے والد نے میری والدہ کو حق مہر ادا کردیا تھا ۔میرے والد کی وصیت کی ایک فوٹو کاپی خط کے ساتھ لگادی گئی ہے۔
میرے والد کی میراث کی بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہم نے استعمال بھی کرلی ہیں اور کچھ غرباء اور مدرسہ وغیرہ میں دے دیں اور کچھ بیچ دیں ہیں ۔جبکہ کچھ چیزیں ابھی بھی موجود ہیں جو چیزیں موجود ہیں ان کی قیمت آج کے ریٹ کے حساب سے لگانی ہے یا جب والد فوت ہوئے اس دن کے ریٹ کے مطابق ؟میرے والد کی جو پراپرٹی ہے یعنی ایک دکان اور ہوٹل اور ہمارا گھر اور ہوٹل کے پیچھے پلاٹ ہے وہ سب ہمارے پاس موجود ہے اور ہمارے قبضہ میں ہے جبکہ ہوٹل کے پیچھے جو پلاٹ ہے 21/2کنال کا والد نے وصیت کی ہے کہ اس میں سے دس مرلے جگہ میں نے اپنی بیٹی کودینی ہے ۔وصیت کی فوٹو کاپی ساتھ لگادی ہے اس میں یہ بات لکھی ہے۔اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر والد کی جائیداد میں سے شرعا ہماری دادی یعنی والدکی والدہ کا حصہ بھی بنتا ہے تو چونکہ دادی فوت ہوگئیں ہیں تو وہ ہماری ساری جائیداد پر قبضہ کرلیں یا یہ کہ ہماری آمدن کا ذریعہ ہی بند کرنے کی کوشش کریں ہمارے لیے کوئی تنازعہ بنادیں یا مسئلہ بنادیں تو اس صورت میں مجھے کیا کرنا چائیے کہ اگر والد کی جائیداد میں دادی کا حصہ علیحدہ کریں اور چچا کو بتائیں تو وہ کوئی مسئلہ نہ بنادیں؟
برائے مہر بانی اس ساری صورتحال کے تحت میری رہنمائی کریں تاکہ میں شرعا اپنے والد کی تمام میراث تقسیم کر سکوں اور مجھے آ پ کا جواب جلدی چائیے ۔اور اس کے ساتھ ہی اگر میرا بھائی اور میری بہن اگر ہماری دادی کا کوئی حصہ بنتا ہے ،اس کو دینے پر راضی نہ ہوں تو اس صورت میں میں کیا کروں ؟اور اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر وراثتی انتقال کرانے میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے تو اس دوران جو کرایہ آرہا ہے اس کا کیا کیا جائے ؟مطلب وہ کرایہ سب ورثاء کوا ن کے حصے کے بقدر دینا ہو گا؟برائے مہربانی اس ساری صورتحال کے تحت میری رہنمائی کریں میں خط کے لفافہ میں جوابی لفافہ بھی بھیج رہا ہوں جس پر میرا پتہ بھی درج ہے تاکہ مجھے اس پتہ پر جواب مل جائے اور اس کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی پوچھنا ہے کر والد کی جائیداد پر میں نے جو مرمت کا خرچہ کیا یا جو تعمیرات کیں یا نیا بور کروایا پانی کیلئے اس پر جو پراپرٹی ٹیکس ادا کی اس سب کا کیا کیا جائے ؟اور ہمارے ہوٹل کے ایک کرائے دارنے ہم سے 5لاکھ روپے لیے تھے ہوٹل کو خالی کرنے کیلئے کیونکہ وہ ہوٹل کو خالی نہیں کرتا تھاتو ہم نے مجبورا دیئے تو ان 5لاکھ کا کیا کیا جائے ؟
والد کا وصیت نامہ :
میرے دوبچے ایک بچی ایک بیوی میری جائیداد کے مالک ہیںیعنی قاضی مارکیٹ والی دکان اور ہوٹل اور ڈھائی کنال جگہ خالی اور ایک دکان پھر اپنا گھر یہ جائیداد ہے یہ اللہ تعالی کی چیز ہے اور میری ہے اس کے اندر اور کوئی حصہ دار نہیں ہے میرے بہن بھائی یا کوئی اور مالک نہیں ہے لہذا اس جائیداد میں گھر یعنی مکان اور ہوٹل دکان زمین سب بچوں کی ہے دس مرلے جگہ بچی کو دینی ہے باقی لین دین دکان کا حاجی سرفراز کو معلوم ہے دکان کے اندر سامان بڑا مع بنک کے اندر پیسہ بڑا ہے وہ بھی حاجی سرفراز کو معلوم ہے لین دین وقت کے ساتھ ساتھ کرتا رہے گا۔
نوٹ : یہ وصیت ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں کی ہے اور بالکل تندرست تھے اور والد صاحب گاہے بگاہے والدہ صاحبہ کو کہتے تھے کہ میری جتنی بھی جائیداد ہے وہ میری اولاد کی ہے اور یہ تحریر بھی ہمارے والد صاحب کی ہے ۔
نوٹ : براہ مہربانی مجھے اس ساری صورتحال کے تحت اپنے تمام سوالات کے تفصیل اور تسلی بخشش جوابات چاہییں تاکہ میں شریعت کے مطابق میراث کی تقسیم کر سکوں جو کہ والد چھوڑگئے ہیں ۔
وضاحت مطلوب ہے ؟
گاہے بگاہے کا کہنا وصیت سے پہلے کا ہے یا بعد کا ؟اگر پہلے کا ہے تو کیا وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے تھے یا صرف اولاد کے بارے میں کہتے تھے ؟
جواب وضاحت:یہ بات والد صاحب اکثر کہتے رہتے تھے وصیت کرنے سے پہلے ۔والد صاحب نے میری والدہ کو بھی شامل کیا ہے ،اپنی اولاد کیسا تھ اور وصیت کرنے سے پہلے زبانی بھی کہتے تھے۔
اس تفصیل کی روشنی میں مجھے درج ذیل سوالات مسائل کا جواب مطلوب ہے :
مجھے جوابات جلدی چائیں ۔میرا رابطہ نمبر درج ذیل ہے :
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کے والد آ پ کی والدہ کو گاہے بگاہے یہ کہتے رہتے تھے کہ میری جتنی بھی جائیداد ہے وہ میری اولاد کی ہے اور وصیت نامے میں بھی یہ لکھا ہے کہ میرے دو بچے، ایک بچی ،ایک بیوی میری جائیداد کے مالک ہیں ’’آپ کے والد کا یہ کہنا اور لکھنا اپنی جائیداد کو اپنی بیوی اور اولاد کیلئے ہدیہ کرنا ہے اور ہدیہ میں اگر چہ حنفیہ کے نزدیک ہبہ لینے والے کا قبضہ کرنا بھی ضروری ہے تاہم بعض دیگر ائمہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ہے اور آج کل کے حالات میں ان بعض ائمہ کے قول کو لینے کے کی گنجائش ہے۔لہذا آپ کے والد کی کل جائیداد کے مالک ان کے دوبچے ایک بچی اور ان کی ایک بیوی ہے اور چونکہ آپ کے والد نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس جائیداد میں کس کا کتنا حصہ ہے اس لیے عرف کی وجہ سے اس جائیداد میں بیوی بچوں کے حصے کا تناسب ان کے شرعی حصوں کے بقدر ہو گا،البتہ یہ ہبہ چونکہ صرف جائیداد کے بارے میں ہے اس لیے جائیداد کے علاوہ جو چیزیں وفات کے وقت آ پ کے والد کی ملکیت میں تھیں ان میں وراثت جاری ہو گی ۔
فتاوی خلیلہ میں ہے :
’’زید کا بحالت صحت یہ کہنا کہ میری کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ کامالک بکر ہے ،یہ ہبہ ہے ‘‘۔
فتاوی عالمگیر ی6/94میں ہے:
وإذا قال عبدي هذا لفلان وداري هذه لفلان ولم يقل وصية ولا كان في ذكر وصية ولا قال بعد موتي كان هبة قياسا واستحسانا فإن قبضها في حال حياته صح وإن لم يقبضها حتى مات فهو باطل وإن ذكرها في خلال الوصية ذكر الشيخ الإمام العالم الزاهد أحمد الطواويسي رحمه الله تعالى في شرح وصايا الأصل القياس أن يكون هذا وصية وفي الاستحسان لا يكون وصية كذا في المحيط .
ذکرکردہ تفصیل کے بعد آپ کے سوالوں کا نمبر وار جواب مندرجہ ذیل ہے:
1۔میرے والد کی وفات کے وقت دادی زندہ تھیں ان کا حصہ کتنا بنتا ہے یا ان کا حصہ نہیں بنتا ؟
جواب :غیر منقولہ جائیداد میں آ پ کی دادی کا کچھ حصہ نہیں،البتہ منقولہ چیزوں میں6/1یعنی چھٹا حصہ آپ کی دادی کا ہو گا اور دادی کی وفات کے بعد یہ6/1چھٹا حصہ ان کی اس وقت موجود اولاد میں تقسیم ہو گا ۔
2۔میرے دادا نے اپنی بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا تو کیا میری دادی کی نسبت سے ان کا (پھوپھیوں کا)حصہ بنے گا میرے والد کی جائیداد میں سے ۔
جواب :بنے گا ۔
3۔میرے تین چچائوں اور دو پھوپھیوں بشمول میرے والد کے دادی کے حصے میں سے کتنا حصہ بنتا ہے۔
جواب :آپ کے والد چونکہ آپ کی دادی کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے اس لیے دادی کے حصے میں آپ کے والد کا حصہ نہ ہو گا البتہ آپ کے تین چچائوں اور دو پھوپھیوں کاحصہ ہو گا یعنی حصے آپ کے ہر چچا کو2،2حصے ملیں گے اور 1،1حصہ آپ کی ہر پھوپھی کو ملے گا۔
4۔میراث میں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں ہم بہن بھائیوں نے استعمال کر لیں اور کچھ غرباء اور مدرسہ میں دے دیں اور کچھ بیچ کر رقم استعمال کرلی ان کا کیا حل شرعی ہو گا؟
جواب :ان اشیاء کی قیمت کا اندازہ لگا کراس قیمت کو وراثت کے اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا ہو گا یا ورثاء کو بتا کر ان سے معافی تلافی کرانی ہوگی۔
5۔کچھ چھوٹی چھوٹی چیزیں گھریلو استعمال کی ابھی بھی موجود ہیں اگر وہ بھی تقسیم کرتے ہیں تو ان کی قیمت آج کے ریٹ کے حساب سے لگائیں گے یا والد کی وفات کیو قت کے حساب سے لگائیں ۔
جواب :ان کی قیمت والد کی وفات کے وقت کے حساب سے لگائیں گے ۔
6۔میرے والد کی وصیت میں ہے کہ ہوٹل کے پیچھے 2 کنا ل کے پلاٹ میں سے 10مرلے بیٹی کے ہیں تو کیا یہ دس مرلے باقی حصے کے علاوہ ہوں گے یا میراث میں جو ان کا حصہ بنتا ہے یہ دس مرلے بھی شامل ہوں گے۔
جواب :یہ دس مرلے میراث میں ان کا جو حصہ بنتا ہے اس میں شامل ہوں گے ۔
7۔میری بہن اور بھائی اگر دادی کا حصہ نکالنے کے پر راضی نہ ہو کہ دادی کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ان کو ملے گا ،تو میں کیا کروں ؟میرے لیے شرعی حکم کیا ہے؟
جواب اول تو آپ اپنی بہن اور اپنے بھائی کو راضی کرنے کی کوشش کریں ،کوشش کے باوجود بھی وہ راضی نہ ہوں تو آپ اپنی حد تک ان کا حصہ ادا کردیں۔
8۔وراثتی انتقال سے پہلے اگر چچائوں کو اشارہ بھی ہو گیا کہ ہمارا حصہ بنتا ہے تو وہ ہمارے لیے مسائل کھڑے کریں گے لیکن ہوٹل کا کرایہ جو ہماری آمدن کا ذریعہ ہے اس کا کیا کیا جائے یعنی جائیداد کی تقسیم کے بعد سب ورثا کو ان کے حصے کے بقدر دینا ہو گا۔
جواب :مذکورہ صورت میں جائیداد میں تو آپ کے چچائوں کا حصہ بنتا ہی نہیں ،اور جائیداد کے علاوہ میںسے ان کا حصہ دینے کے لیے انہیں بتانا ضروری نہیں۔
9۔والد صاحب کی جائیداد پر (مثلا ہوٹل وغیرہ)جو مرمت کا خرچہ کیا یا جو تعمیرات کروائی یا نیا بور کروا یا پانی کیلئے جو پراپرٹی ٹیکس ادا کئے اس سب کا کیا کیا جائے ؟
جواب :جائیداد پر جو خرچہ ہوا اسے منہا کر سکتے ہیں۔
10۔والد صاحب کی وفات کے بعد ہوٹل کے پرانے کرایہ دار سے جان چھڑانے کیلئے 5لاکھ روپے دیے تھے مجبورا ان 5لاکھ کا کیا جائے ؟
جواب :چونکہ یہ خرچہ جائیداد چھڑانے کیلئے کیا گیا تھا اس لیے یہ خرچہ آپ پر آپ کی والدوہ پر اور آپ کے بھائی ،بہن پر ہی آئے گا ۔
11۔دادی کا حصہ نکالنے کے بعد ہم دو بھائی اور ایک بہن اور والد صاحب کے درمیان وراثت کس طر ح تقسیم ہو گی ؟
جواب :کل میں سے 1/8یعنی آٹھواں حصہ آپ کی والدہ کو ملے گا اور باقی میں سے 2،2حصے ہر بھائی کو اور ایک حصہ بہن کو ملے گا ۔
12۔والد کی جائیداد سے جو آمدن آتی رہی ہے کرایہ کی صورت میں وہ میں اور میرے گھر والے استعمال کرتے رہے ہیں اور دادی کو اس کرایہ میں سے کچھ بھی نہیں دیا تو اس کرایہ کا کیا کیا جائے ؟اور جائیدا د کو تقسیم کرنے میں اور وراثتی انتقال میں کچھ عرصہ لگ جائے گا تو اس دوران کرایہ کو کس طرح ورثاء میں تقسیم کیا جائے ؟
جواب :جائیداد کی آمدن میں سے دادی کا حصہ نہیں ،جائیداد کے وارث صرف آپ بہن بھائی اور آپکی والدہ ہے ۔لہذا اس آمدنی کو اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کریں۔
13۔میں نے ہمشیرہ کی جو شادی کی ہے اس کا خرچہ جتنا ہوا اور جہیز بھی دیا تو کیا یہ سب ہمشیرہ کا جو حصہ بنتا ہے جائیداد میں سے ،کاٹ لوں؟
جواب :اگر کاٹنے کی نیت سے یہ خرچہ کیا تھا تو کاٹ سکتے ہیں ورنہ نہیں کاٹ سکتے ہیں۔
14۔میرے والد وصیت کرگئے ہیں کہ میری تمام جائیداد میں سے میری اولاد اور بیوی کے علاوہ کوئی حصہ دار نہیں اور میرے والد میری والدہ سے بھی اس بات کا اقرار کرتے رہتے تھے کہ یہ ساری جائیداد بچوں کی ہے اور ان کے کام آئے گی اور ان کی بالکل واضح نیت تھی کہ اس میں بچوں اور بیوی کے علاوہ کوئی حصہ دار نہیں تو کیا اب بھی والد کی جائیداد میں سے ہماری دادی یاکسی او رکا حصہ بنے گا؟
جواب :جائیداد میں سے تو نہ بنے گا البتہ دیگر اشیاء میں بنے گا ۔
15۔کیا راضی نامے کی رقم بھی تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ہوگی ؟
جواب :جی ہاں۔
16۔کیا والد کا تمام قرضہ جو میں نے خود ادا کیا وہ والد کی کل میراث میں سے منفی ہو گا ؟
جواب :جی ہاں۔
17۔والد کی جائیداد میں ہمارا مکان بھی ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں تو اگر دادی کا حصہ بنتا ہے والد کی جائید اد میں سے تو کیا اس مکان کو اتنے سال استعمال کرنے پر ہمیں دادی کے حصے میں کچھ ادا کرنا پڑے گا؟
جواب :مکان میں دادی کا حصہ نہیں۔
18۔اگر میری ہمشیرہ اور بھائی دادی کا حصہ دینے پر یا علیحدہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو پھر میں کیا کروں؟
اس کا جواب نمبر 7کے ذیل میں گزر چکاہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved