- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
زید اسلام آباد کا رہنے والا ہے اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور کے ایک مدرسے میں داخل ہے۔ مدرسہ میں رہائش کی صورت یہ ہے کہ ایک بڑا کمرہ ہے جس میں تقریباً 15 طلباء رہائش پذیر ہیں، اس کمرے میں ہمارا بستر، کپڑے اور دیگر سامان رکھا ہوا ہے جو کہ ہر طالب علم اپنی اپنی الماری میں رکھتا ہے۔ الماری مدرسہ کی طرف سے سامان رکھنے کے لیے مہیا کی گئی ہے اور الماری کا تالہ اور چابی ہر طالب علم کی اپنی ملکیت میں ہے۔ جبکہ اس کمرے کی چابی اساتذہ کے پاس ہوتی ہے۔ زید اس مدرسہ میں داخلہ کے بعد متعدد مرتبہ 15 دن سے زائد کی نیت کر کے لاہور ٹھہر چکا ہے۔ مذکورہ صورت حال کے پیشِ نظر سوال یہ ہے:
1۔ اگر زید 15 کی نیت سے لاہور ٹھہر چکنے کے بعد اسلام آباد جاتا ہے اور واپسی پر لاہور 10 دن ٹھہر کر کسی دوسرے شہر جانے کا ارادہ ہے تو کیا ان دنوں میں زید لاہور میں مقیم ہو گا یا مسافر؟
2۔ اگر زید اس صورت حال میں دس دن قیام کرنے میں مقیم ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لایا ہے جو کہ دیگر عزیزوں کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں اور وہ بھی دس دن کی نیت سے آئے ہیں تو کیا وہ زید کے تابع ہو کر مقیم ہوں گے یا مسافر؟
3۔ اس صورتحال میں اگر زید 15 دن ٹھہرنے کی نیت سے لاہور آئے جبکہ بیوی بچے بھی ساتھ ہوں اور ان کو 15 دن سے کم ٹھہرانے کی نیت ہو تو کیا وہ زید کے تابع ہو کر مقیم شمار ہوں ہوں گے یا مسافر؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں زید جب اسلام آباد سے لاہور آئے تو وہ مسافر شمار ہو گا۔ کیونکہ سفر کی وجہ سے سابقہ وطن اقامت تو
باطل ہو گیا اور دوبارہ پندرہ دن کے قیام کی نیت نہ ہونے کی وجہ سے لاہور وطن اقامت بنا نہیں۔ اور جو وطن اقامت سفر سے باطن نہیں ہوتا اس کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ آدمی کا سازو سامان کسی ایسے کمرے میں ہو کہ جس کا تالا چابی اس آدمی کے اپنے قبضہ و اختیار میں ہو۔ یہ شرط مذکورہ صورت میں مفقود ہے کیونکہ کمرے کا تالا چابی مذکورہ شخص کے قبضہ و اختیار میں نہیں ہے۔
2۔ مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی بچے بھی 10 دن کی نیت سے آئے ہیں اس لیے وہ بھی مسافر ہوں گے۔
3۔ مذکورہ صورت میں زید تو مقیم ہو گا کیونکہ اس کی پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہے، البتہ بیوی بچے مقیم شمار نہ ہوں گے کیونکہ نہ تو خود بیوی بچوں کی پندرہ دن قیام کی نیت ہے اور نہ ہی زید کی ان کو پندرہ دن ٹھہرانے کی نیت ہے۔
احسن الفتاویٰ (4/ 112) میں ہے:
’’بقاء وطن اقامت کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ وہاں اہل و عیال چھوڑ کر گیا ہو، یا سامان اپنے مقبوض مکان میں رکھ کر گیا ہو، اور اگر سامان کسی کے پاس ودیعت رکھ کر گیا تو وطن اقامت باطن ہو جائے گا، اس لیے کہ اسے عرف میں سکونت نہیں کہا جاتا۔‘‘
فتاویٰ شامی (2/ 729) میں ہے:
(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي نصف الشهر …. (أو لم يكن مستقلاً برأيه) كعبد و امرأة (أو دخل بلدة و لم ينوها) أي مدة الإقامة. و في الشامية: قوله (أو لم يكن مسقلاً برأيه) عطف على قوله ”إن نوى أقل منه“ و صورته نوى التابع الإقامة و لم ينوها المتبوع أو لم يدر حاله فإنه لا يتم.
فتاویٰ شامی میں دوسری جگہ(2/ 741 تا 744) ہے:
(و المعتبر نية المتبوع) لأنه الأصل لا التابع (كامرأة) وفاها مهرها المعجل (وعبد) غير مكاتب (و جندي) إذا يرتزق من الأمير أو بيت المال (و أجير) و أسير و غريم و تلميذ (مع زوج و مولى و أمير و مستأجر). و في الشامية قوله (و تلميذ) أي إذا كان يرتزق من أستاذه …. و قلت و مثله بالأولى الابن البار البالغ مع أبيه.
© Copyright 2024, All Rights Reserved