• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وطن تاہل جہاں خود آدمی نہ رہتا ہو میں نماز کے قصر و اتمام کا حکم

استفتاء

*** *** کا رہائشی ہے یہاں اس کی ایک بیوی اور بچے بھی ہیں۔ اس نے ایک دوسرا نکاح *** میں بھی کیا ہے۔ *** والی اہلیہ *** میں ہی اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہیں اور ان کا *** چھوڑ کر *** آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ *** نے بھی مستقل *** میں رہنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ *** رہنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہاں البتہ  *** کبھی کبھار *** جاتا ہے اور ایک آدھ دن کے لیے وہاں قیام بھی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں *** *** میں مقیم شمار ہو گا یا مسافر؟

مسائل بہشتی زیور وغیرہ میں ایسی صورت میں *** کے لیے *** کو بھی  وطن شمار کیا گیا ہے۔ جبکہ بعض اہل علم حضرات کا خیال یہ ہے کہ بہشتی زیور کا مسئلہ اس صورت پر محمول ہے جب *** خود بھی وہاں مستقل رہنے کی نیت رکھتا ہو اگرچہ عملاً نہ رہے۔ محض اہلیہ کے مستقل رہنے سے *** کا وطن شمار نہ ہو گا۔ از راہ کرم یہ بتا دیں کہ مسئلہ کی تحقیق کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں *** *** اور *** دونوں شہروں میں مقیم ہو گا۔ خواہ *** کی *** میں مستقل قیام کی نیت ہو یا نہ ہو۔  کیونکہ *** نے جب دوسرے شہر *** میں نکاح کر لیا اور گھر والی کو وہیں رکھا تو اب *** *** کے لیے وطنِ اصلی (تاھل) شمار ہو گا۔ وطنِ تاھل وہ ہے جہاں شادی کی ہو اور اہلیہ کو وہاں رکھنے کی نیت ہو۔ اپنے مستقل قیام کی نیت شرط نہیں ورنہ وطنِ تاھل کی الگ قسم بے معنیٰ ہو گی۔

بدائع  الصنائع(1/ 280) میں ہے:

وطن أصلي: و هو وطن الإنسان في بلدة أو بلدة أخرى اتخذها داراً و توطن بها مع أهله و ولده و ليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها… و فيه أيضاً بعد سطور: ثم الوطن الأصلي يجوز أن يكون واحداً أو أكثر من ذلك، بأن كان له أهل و دار في بلدتين أو أكثر و لم يكن من نية أهله الخروج منها.

تاتارخانیہ (1/510) میں ہے:

والأوطان ثلاثة: وطن أصلي وهو مولد الرجل والبلد الذي تأهل به ووطن سفر.

تاتارخانیہ (2/511) میں ہے:

ولو كان له أهل ببلدة فاستحدث في بلدة أخرى أهلاً فكل واحد منهما وطن أصلي له.

فتاویٰ  شامی  (2/739) میں ہے:

ولو كان أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيماً.

امداد الاحکام (1/695) مطبوعہ دار العلوم کراچی میں ہے:

ان نصوصِ فقہیہ سے چند امور مستنبط ہوئے:

(1) وطن اصلی وہ ہے جس میں تعیش مع الاہل ہو اور وہاں سے ارتحال و نقل اہل کا قصد نہ ہو۔

(2) جب کسی دوسرے مقام میں  ارادہ ہو تو بدون نقلِ اہل کے پہلا وطن باطل نہ ہو گا۔

(3) وطن اصلی متعدد ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی شخص چار نکاح چار شہروں میں کرے اور اور ہر بیوی کو اسی کے شہر میں رکھے تو اس شخص کے چار وطن اصلی ہو جائیں گے۔

4۔ جس شہر میں کسی شخص کے اہل و عیال کا مستقل قیام ہو خواہ کرایہ کے مکان میں یا ذاتی مکان میں وہاں جب مسافر ہو کر پہنچے تو قصر باقی نہ رہے گا، بلکہ اتمام ضروری ہو گا جیسا کہ بعض ملازمانِ سرکاری اپنے اہل و عیال کو جائے ملازمت میں مستقل طور پر رکھتے ہیں، پھر وہاں سے مختلف مقامات کا دورہ کرتے ہیں، یہ لوگ جب اپنے اہل و عیال کی قیام گاہ پر پہنچیں گے مقیم ہو جائیں گے،   يدل عليه جزئية السراجية والمجتبى.

5۔ کسی شہر میں محض نکاح کر لینے سے وہ وطن اصلی نہیں ہو جاتا بلکہ اہل کا وہاں رکھنا اور وہاں سے منتقل نہ کرنا شرط ہے، چنانچہ عبارتِ بحر میں  ’’وتوطن بها مع أهله وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها‘‘ اور عبارت فتح میں ’’أو موضع تأهل به و من قصده التعيش به لا الارتحال‘‘  اور عبارت خلاصہ میں ’’أو لم يكن مولده ولكن تأهل فيه وجعله داراً‘‘  تاہل کے ساتھ قصد تعیش و جعل دار کی قید صاف مذکور ہے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصہ میں بھی ان کے اتمام کا سبب محض تزوج نہ تھا، بلکہ تزوج کے بعد اہل کا مکہ میں رکھنا اس کا سبب تھا، چنانچہ کفایہ کی عبارت میں اس کی تصریح ہے ’’روي أنه كان لعثمان رضي الله عنه أهل بالمدينة وأهل بمكة وكان يتم بهما جميعاً‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی شہر میں نکاح کر کے زوجہ کو وہاں نہ رکھے بلکہ اپنے شہر میں لے آئے تو زوجہ کا وطن شوہر کا وطنِ اصلی نہ ہو گا شوہر وہاں جب مسافر ہو کر گذرے تو قصر کرے گا اور اگر زوجہ کو اسی کے وطن میں رکھے تو اس کا وطن زوج کا وطن ہو جائے گا خواہ زوج کا مستقل قیام اپنے وطن میں رہتا ہو یا دونوں جگہ رہتا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باوجودیکہ مکہ میں مقیم نہ تھے اور نہ ان کو مکہ مکرمہ میں اقامت جائز تھی ’’قال في الفتح: إن الإقامة بمكة على المهاجرين حرام كما سيأتي‘‘…. لیکن پھر بھی انہوں نے قصر نہ کیا کیونکہ ان کی ایک اہل مستقل طور پر مکہ میں مقیم تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شوہر کا مستقبل قیام گو اپنے وطن میں ہو لیکن جب اس کی بیوی کا مستقل قیام دوسری جگہ ہو گا تو شوہر وہاں جا کر مقیم ہو جائے گا ۔۔۔ مرد کا زوجہ کو مستقلاً کسی مقام پر رکھنا یہ عملاً اقامت ہے لأنه لا يخلو عن نوع تعيش به وتأهل۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved