- فتوی نمبر: 18-332
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > عملیات، تعویذات اور جادو و جنات
استفتاء
1)وظائف کا کیا حکم ہے ؟
2)خاص عبقری کے وظائف جو کہ یقین کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں (کہ اس طرح پڑھنے سے یہ کام ہو جائے گا وغیرہ) اس کا کیا حکم ہے؟
3)حاجت کے لیے خاص نوافل منقول ہے جس میں چار رکعت میں مختلف آیا ت سو سو مرتبہ پڑھی جاتی ہیں۔
پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد حسبنا اللہ ونعم الوکیل
دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد آیت کریمہ والی آیت
تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدرب انی مغلوب فانتصر
چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ربنا ظلمناانفسنا الخ
اگر کوئی ضرورت کی وجہ سے روز پڑھتا ہے تو کیا حکم ہے؟
4 )عوام میں مشہور ہے کہ ایک وقت میں مختلف وظا ئف نہیں کرنے چاہیے کیا یہ درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1)وظائف سے مراد اگر عملیات ہیں تو ان کا حکم یہ ہے کہ ان کوپڑھنا جائز ہےبشرطیکہ ان میں خلاف شرع کوئی بات نہ ہو لہذا کوئی وظیفہ پڑھنے سے پہلے پتہ کر لیا جائے کہ یہ خلاف شرع تو نہیں ۔ نیز وظائف کرتے ہوئے یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ وظائف (عملیات)بمنزلہ دوا کے ہیں بلکہ دوا سے بھی نیچے کے درجے کے ہیں انہیں دینی حیثیت دینا یعنی دین سمجھنا یا ان پر یقین کرنا جائز نہیں ۔نیز جائز وظائف (عملیات )میں بھی انہماک ناپسندیدہ ہے۔
2) جو وظائف (عملیات)قرآن و سنت سے منقول نہیں بلکہ مشائخ کے مجربات ہیں وہ بمنزلہ جائز دوا کے ہیں ان کو دین کی چیز سمجھنا جہالت ہے لہذا جس طرح جائز دوا کا استعمال جائز ہے لیکن اس پر یقین کرنا جائز نہیں اسی طرح جو وظائف مجربات مشائخ ہو ں انہیں استعمال کرنا یعنی پڑھنا جائز ہے البتہ ان پر یقین کرنا یا انہیں یقین کے ساتھ بیان کرنا جائز نہیں ۔
3) سوال میں مذکور آیت پوری نہیں ۔پوری آیت اس طرح ہے ۔
الذىن قال لهم الناس ان الناس قد جمعوا لكم فاخشوهم فزادهم ايمانا وقالوا حسبنا الله و نعم الوکیل(آل عمران 173)
اسی طرح "رب اني مغلوب فانتصر” بھی پورے طور پر اس طرح سے نہیں جس طرح سوال میں مذکور ہےبلکہ اصل آیت اس طرح ہے
فدعا ربه اني مغلوب فانتصر(القمر10)
نوافل میں آیت کا تکرار درست ہے لیکن یہ دونوں آیات پوری آیات نہیں ہیں نیز ان کی مقدار بھی تیس حروف سے کم ہے لہذا ان کے پڑھنے سے نماز نہ ہوگی ۔
الدر المختار مع الرد(2/312) میں ہے:
( وفرض القراءة آية على المذهب ) هي لغة : العلامة.وعرفا : طائفة من القرآن مترجمة ، أقلها ستة أحرف ولو تقديرا ، ك ( لم يلد ) ، إلا إذا كان كلمة فالأصح عدم الصحة وإن كررها مرارا إلا إذا حكم حاكم فيجوز ذكره القهستاني . ولو قرأ آية طويلة في الركعتين فالأصح الصحة اتفاقا لأنه يزيد على ثلاث آيات قصار قاله الحلبی.
وقال شامي تحته
قال في البحر : وعلم من تعليلهم أن كون المقروء .في كل ركعة النصف ليس بشرط بل أن يكون البعض يبلغ ما يعد بقراءته قارئا عرفا .
أقول : وينبغي أن يكون الاكتفاء بما دون الآية مفرعا على الرواية الثانية عن الإمام ، لأن الرواية الأولى التي تقدم أنها ظاهر الرواية لا بد من آية تامة تأمل .
[ تنبيه ] لم أر من قدر أدنى ما يكفي بحد مقدر من الآية الطويلة ، وظاهر كلام البحر كغيره أنه موكول إلى العرف لا إلى عدد حروف أقصر آية ، وعلى هذا لو أراد قراءة قدر ثلاث آيات التي هي واجبة عند الإمام لا بد أن يقرأ من الآية الطويلة مقدارثلاثة أمثال مما يسمى بقراءته قارئا عرفا ، ولذا فرضوا المسألة بآية الكرسي وآية المداينة .وفي التتارخانية والمعراج وغيرهما : لو قرأ آية طويلة كآية الكرسي .أو المداينة البعض في ركعة والبعض في ركعة اختلفوا فيه على قول أبي حنيفة ، قيل لا يجوز لأنه ما قرأ آية تامة في كل ركعة ، وعامتهم على أنه يجوز لأن بعض هذه الآيات يزيد على ثلاث قصار أو يعدلها فلا تكون قراءته أقل من ثلاث آيات .ا هـ .لكن التعليل الأخير ربما يفيد اعتبار العدد في الكلمات أو الحروف ، ويفيد قولهم : لو قرأ آية تعدل أقصر سورة جاز ، وفي بعض العبارات تعدل ثلاثا قصارا أي كقوله تعالى – { ثم نظر ثم عبس وبسر ثم أدبر واستكبر } – وقدرها من حيث الكلمات عشر ، ومن حيث الحروف ثلاثون ، فلو قرأ – { الله لا إله إلا هو الحي القيوم لا تأخذه سنة ولا نوم } – يبلغ مقدار هذه الآيات الثلاث ، فعلى ما قلناه لو اقتصر على هذا القدر في كل ركعة كفى عن الواجب ، ولم أر من تعرض لشيء من ذلك فليتأمل
4) وظائف بھی بمنزلہ دوا کے ہیں لہذا جس طرح کسی ماہر کی رائے کے بغیر ایک وقت میں متعدد دوائیں استعمال کرنا مضر ہو سکتا ہے اسی طرح کسی ماہر کی رائے کے بغیر ایک وقت میں متعدد وظائف پڑھنا بھی مضر ہو سکتا ہے۔
عملیات و تعویذات کے شرعی احکام (افادات حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ رحمہ اللہ ) میں ہے۔
امراض وپریشانیاں دور کرنے کے تین طریقے
امراض وپریشانیاں دور ہونے کی کل تین تدبیریں ہیں: دوا، دعا، تعویذ۔ پہلی دو تو ضرور کرواور تیسری کبھی کبھی بعض امراض میں کرلو تو مضائقہ نہیں۔ یہ نہ کرو کہ دوا اور تعویذپر اکتفا کرلو اور دعا کو بالکل چھوڑ دو۔)خطبات حکیم الامت 9/37)
جس طرح بیماری کا علاج دوا دارُو سے ہوتا ہے اسی طرح بعض موقع پر جھاڑ پھونک سے بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔(بہشتی زیور 466)
خلاصہ یہ ہے کہ مرض میں چھوڑنے کی شے شکوہ وشکات اور بے صبری کی باتیں ہیں کرنے کے کام یہ ہیں کہ جم کر اور استقلال سے دوا اور دعا کرو احیاناًجھاڑ پھونک کا اور تعویذ گنڈے جو حد شریعت کے اندر ہوں کر لو مضائقہ نہیں۔(خطبات حکیم الامت 9/39)
عملیات و تعویذات کی شرعی حیثیت
عملیات وتعویذات اگر صحیح اور جائز ہوں تب بھی (ان کی حیثیت) دنیاوی اسباب اور طبّی (یعنی علاج ومعالجہ کی) تدبیر کی طرح ہے۔(التقی فی احکام الرقی ص 26،بحوالہ اشرف العملیات ص 18)
طبّی دواؤں کی طرح یہ بھی (ایک دوا اور علاج ) ہے، مؤثرِ حقیقی نہیں، نہ اس پر اثر مرتب ہونے کا اللہ ورسول کی طرف سے حتمی وعدہ ہوا ہے، اور نہ اللہ کے نام اور کلام کا یہ اصلی اثر ہے۔(حاصل یہ کہ) جھاڑ پھونک (عملیات وتعویذات) دوسرے جائز کاموں کی طرح (ایک جائز کام) ہے اگر اس میں کوئی مفسدہ شامل ہوجائے یا جواز کی شرط نہ پائی جائے تو ناجائز اور معصیت ہے۔(التقی فی احکام الرقی ص 30،26،24بحوالہ اشرف العملیات ص 18)
عملیات تعویذات اور علاج کا فرق
ایک خرابی اس میں یہ دیکھی گئی کہ اکثر لوگ تعویذ گنڈہ کرنے والے کی بزرگی کے معتقد ہو جاتے ہیں خصوص جس کے تعویذ گنڈوں سے نفع ہو جاتا ہے حالانکہ بزرگی سے اس کو کوئی تعلق نہیں یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی طبیب کے کسی نسخہ سے مرض کو شفاء ہو جاۓ اور اس کو بزرگ خیال کرنے لگیں مگر تعویذ دینے والے کے معتقد ہیں نہ معلوم اس میں اور اس میں کیا فرق کرتے ہیں ـ میرے نزدیک تو کوئ فرق نہیں دنیوی فن ہیں ـوجہ فرق کی صرف ایک سمجھ میں آتی ہے کہ طبیب کے علاج کو امر دنیوی سمجھتے ہیں اور عامل کے علاج کو امر دینی خیال کرتے ہیں اور عوام کا یہ خیال اس وجہ سے ہے کہ عملیات کا امور عالیہ قدسیہ سے تعلق ہے نیز اس کے علاوہ بھی ان تعویذ گنڈوں کے متعلق اکثر لوگوں کے عقائد بہت ہی خراب ہیں جس کا سبب جہل اور حقیقت سے بے خبری ہے۔(ملفوظات حکیم الامت 4/204)
مسجد میں بیٹھ کر عملیات کرنے کا شرعی حکم
عملیات میں ایک بات قابل لحاظ یہ ہے کہ جو عملیات دنیا کے واسطے ہوتے ہیں وہ موجب ثواب نہیں ہوتے ہیں (یعنی ان کے کرنے میں ثواب نہیں ملتا)۔ ان میں ثواب کا اعتقاد رکھنا بدعت ہے۔اسی طرح ایسے عملیات کو مسجد میں بیٹھ کر نہ پڑھنا چاہیے اور نہ اس قسم کے تعویذ مسجد میں بیٹھ کر لکھنے چاہیے۔ کیوں کہ اگر تعویذپر اجرت لی جائے تو یہ تجارت ہے جس کو مسجد سے باہر کرنا چاہیے۔ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو مدرس بچوں کو تنخواہ لے کر پڑھاتا ہو اس کو (شدید ضرورت کے بغیر) مسجد میں نہ بیٹھنا چاہیے۔ کیوں کہ مسجد میں اجرت کاکام کرنا بیع وشرا ءمیں داخل ہے۔اسی طرح جو شخص اجرت پر کتابت کرتا ہو، یا جو درزی اجرت پر کپڑے سیتا ہو یہ سب لوگ مسجد میں بیٹھ کر یہ کام نہ کریں۔البتہ معتکف کے لیے حالت اعتکاف میں گنجائش ہے۔ اور اگر مسجد میں بیٹھ کر اپنے لیے کوئی عمل کیا جائے تو یہ تجارت تو نہیں ہے مگر ہے دنیا کا کام وہ بھی مسجد میں نہ ہونا چاہیے۔علوی عملیات کے جائز ہونے کے اتنے شرائط ہیں یہ مسائل آپ نے کبھی نہ سنے ہوں گے۔(خطبات حکیم الامت 2/135،136)
عملیات وتعویذات کرنا افضل ہے یا نہ کرنا افضل ہے
عملیات وتعویذات نہ کرنے کی فضیلت:حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ جو جھاڑ پھونک ممنوع ہے وہ نہیں کرتے اور بعض نے کہا ہے کہ افضل یہی ہے کہ جھاڑ پھونک بالکل نہ کرے اور بدشگونی یہ کہ مثلاً چھینکنے کو یا کسی جانور کے سامنے سے نکل جانے کو منحوس سمجھ کر وسوسہ میں مبتلا ہوجائیں۔ مؤثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہیں، اس قدر وسوسہ نہ کرنا چاہیے۔(فروع الایمان ص29 فصل: رضاء بالقضاء)
احادیث سے افضل اور اکمل حالت یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس کو (یعنی عملیات وتعویذات کو)نہ کیا جائے اور محض دعا پر اکتفا کیا جائے۔ اور ترک رُقیہ (یعنی جھاڑ پھونک نہ کرنے) کی فضیلت ترک دوا سے بھی زائد ہے کیوں کہ عوام کے لیے تداوی (علاج معالجہ) میں مفسدہ کا احتمال بعید ہے اور جھاڑ پھونک میں نہیں۔(التقی فی احکام الرقی ص33بحوالہ اشرف العملیات ص 42)
سوال : مجھ کو ایک شبہ ہوگیا ہے اس کا حل فرمائیں ۔ وہ یہ کہ ناجائز جھاڑ پھونک یا جائز جھاڑ پھونک جیسا کہ اکثر دستور ہے کہ قرآن شریف کی آیت سے جھاڑ پھونک کرتے ہیں۔ اور میں بالکل نہیں کرتا البتہ کلام الٰہی کو کلامِ الٰہی جانتا ہوں۔ میرا یہ عقیدہ اور خیال خراب تو نہیں ہے؟
الجواب:جائز تو ہے مگر افضل یہی ہے کہ نہ کیا جائے ،آپ کا عقیدہ ٹھیک ہے۔(امدادالفتاوٰی 4/88)
وأما رقية النبيﷺ لنفسه فیحتمل إظهار العبودية والافتقار، وأما بغیره فیحتمل کونه للتشریع وبیان الجواز۔وأما رقية جبرئیل للنبي ﷺ فیحتمل الدعاء؛ لان القرآن کما یختلف دعاء وتلاوةللجنب بالنية، کذلک یختلف دعاء ورقية بالنية.
(التقی فی احکام الرقی ص33بحوالہ اشرف العملیات ص 43)
کس قسم کے عملیات تعویذ گنڈے ممنوع ہیں
تعویذ گنڈا وہ برا ہے جو خلافِ شرع ہو یا اس پر تکیہ واعتماد (یعنی پورا بھروسہ) ہوجائے، اور اگر من جملہ تدبیرِ عادی کے سمجھا جائے اور شرع کے موافق ہو تو کچھ حرج نہیں۔ تسہیل تربیت السالک 2/440)
البتہ جو عملیات خاص قیدوں کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں اور عامل ان کی دلیل سے زا ئد مؤثر سمجھ کر گویا اثر کو اپنے قبضہ میں سمجھتا ہے۔ ایسے عملیات طالبِ حق کی وضع کے خلاف ہیں۔(بوادرا لنوادر ص98)
تعویذات عملیات کے پیچھے نہ پڑنے کی ترغیب اور چند بزرگوں کی حکایتیں
آج کل لوگوں کو عملیات کے بارے میں اس قدر غلو ہوگیا ہے کہ عزائم وعملیات کا مجموعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں میں پڑ کر مقصود سے بہت دور جا پڑے۔ اس لیے کہ اصل مقصود اصلاحِ نفس ہے مگر اس کی بالکل پرواہ نہیں۔ ایک مرتبہ میں نے طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا محمد یعقوب سے عرض کیا کہ حضرت کوئی ایسا بھی عمل ہے جس سے موکل تابع ہوجائیں ؟ فرمایا: ہے تو، مگر یہ بتلاؤ کہ تم بندہ بننے کے لیے پیدا ہوئے یا خدائی کرنے کے لیے؟ بس مولانا کا اتنا کہنا تھا کہ مجھ کو بجائے شوق کے ان عملیات سے نفرت ہوگئی۔حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی کے ایک مرید کا یہ خیال تھا کہ حضرت عمل پڑھتے ہوں گے جس کی وجہ سے اس قدر معتقدین کا ہجوم ہے۔ آپ کو اس خطرہ پر اطلاع ہوگئی۔ آپ نے فرمایا: ارے معلوم بھی ہے کہ ان عملیات سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے۔قربان جائیے حضور ﷺ پر کہ ان سب فضولیات سے بچا کر ہم کو ضروری چیزوں کی طرف لائے۔ میں نے ان چیزوں کے عالموں کو (یعنی عاملین کو) دیکھا ہے کہ ان میں کوئی باطنی کمال نہیں ہوتا بلکہ اور ظلمت بڑھتی ہے۔الحمد للہ مجھے مولانا کے ارشاد کے بعد عملیات سے کبھی مناسبت نہیں ہوئی۔ (ملفوظات حکیم الامت 4/154،155)
باقاعدہ عملیات میں مشغول ہونے سے باطنی نسبت ختم ہوجاتی ہے
مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی نے فرمایا کہ ارے معلوم بھی ہے کہ عملیات میں مشغول ہونے سے باطنی نسبت سلب ہوجاتی ہے۔اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملیات اصل میں ایک قسم کے تصرفات ہیں جو دعوے کو متضمن ہیں، اور ایسا تصرف عبدیت کے منافی ہے۔(ملفوظات حکیم الامت8/333)
ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جیسے عملیات کرنے سے نسبت سلب ہوجاتی ہے اگر کوئی شخص بطور علاج کے دوسرے سے عمل کرائے (تو کیا اس سے بھی نسبت سلب ہوجاتی ہے؟) فرمایا کہ عمل کرنے میں گفتگو تھی، کرانے میں نہیں، عمل کرانا بطور علاج کے ضرورت کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ واقعی بھی ضرورت ہو(اس لیے اس میں کوئی نقصان نہیں)۔ (ملفوظات حکیم الامت 8/334)
اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے دو طریقے
خدا تعالیٰ سے مانگنے کے دو طریقے ہیں: ایک تو دنیا کے واسطے خدا تعالیٰ سے دعا کرنا اور دعا کے ذریعے سے مانگنا یہ مذموم نہیں ہے بلکہ یہ تو شانِ عبدیت ہے۔ اور ایک یہ ہے کہ وظیفہ پڑھ کر مانگنا یہ مذموم (بُرا) ہے۔ اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے وہ یہ کہ دعا کرکے مانگنے میں ایک ذلت کی شان ہوتی ہے اور یہ اس مقصود کے موافق ہے جو بندوں کے پیدا کرنے سے اصل مقصود ہے۔ یعنی یہ کہ اللہ نے انسان کو عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے اسی واسطے حدیث میں آیا ہے:الدعاء مخ العبادة۔کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔(ملفوظات حکیم الامت 3/55)
دعا میں ایک خاصہ ہے جس کی وجہ سے دعا کرکے دنیا مانگنا جائز ہے اور وظیفہ میں وہ بات نہیں اس لیے وہ مذموم ہے۔(ملفوظات حکیم الامت 3/56)
دعا کی حقیقت وہ ہے جو عبادت کی روح ہے یعنی تذلُّل اور اظہارِ احتیاج، دعا کا یہ رنگ ہوتا ہے جس سے سراسر عاجزی اور محتاجگی ٹپکتی ہے۔ اور وظیفہ میں یہ بات نہیں بلکہ اکثر تویہ ہوتا ہے کہ وظیفہ پڑھ کر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وظیفے کے زور سےہمارا مقصود ضرور حاصل ہوگا تو ایسی حالت میں عاجزی ومحتاجگی کا اظہار کہاں؟ پس دنیا کے واسطے وظیفہ پڑھنا اور دنیا کے لیے دعا کرنا برابر نہیں۔اگر کوئی دنیا کے واسطے دعا مانگے اور یوں کہے کہ اے خدا! مجھے سو روپے دے دیجیے، تو یہ جائز ہے، بلکہ اس میں بھی وہی ثواب ہے جو آخرت کے لیے دعا کرنے میں ہے، بشرطے کہ دعا ناجائز کام کے لیے نہ ہو کیوں کہ دنیا کے لیے ہر دعا جائز نہیں بلکہ جو شریعت کے موافق ہو وہی جائز ہے۔مثلاً کوئی شخص ناجائز ملازمت کے لیے دعا مانگے تو یہ جائز نہیں (البتہ جائز دعا مانگنے میں ثواب بھی ہے) اور دنیا کے واسطے وظیفہ پڑھنے میں کوئی ثواب نہیں۔ (خطبات حکیم الامت 3/57)
دعا اور وظیفہ کا فرق
ایک صاحب کا خط آیا ہے انھوں نے دنیا کے کام کے واسطے وظیفہ دریافت کیا ہے۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ دعا سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں۔ پھر فرمایا کہ عملیات میں ایک دعویٰ کی سی شان ہوتی ہے اور دعا میں احتیاج ونیازمندی کی شان ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ چاہیں گے تو کام ہوجائے گا اور عملیات میں یہ نیاز اور احتیاج نہیں ہوتا بلکہ اس پر نظر رہتی ہے کہ جو ہم پڑھ رہے ہیں ا س کا خاصہ ہے کہ یہ کام ہو ہی جائے گا۔مگر اس کے باوجود دعا کو لوگوں نے بالکل چھوڑ ہی دیا اور عملیات کے پیچھے پڑگئے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ دعا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے کیوں مستغنی (بے نیاز ) ہوگئے۔ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اس کی طرف لوگوں کی نظر بہت ہی کم جاتی ہے وہ یہ کہ اوراد ووظائف دنیا کے کام کے واسطے پڑھو گے تو اس پر اجرو ثواب نہ ہوگا اور دعا اگر دنیا کے واسطے بھی ہوگی وہ بھی عبادت ہوگی۔ اور اس میں اجر وثواب ملے گا۔(ملفوظات حکیم الامت 1/365)
عملیات وتعویذات اور دوا وعلاج کا فرق
عملیات بھی دوا کی طرح ایک ظاہری تدبیر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دوا میں فتنہ نہیں۔ وہ فتنہ یہ ہے کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال ہوتا ہے اور طبیب (ڈاکٹر) کی طرف بزرگی کا خیال نہیں ہوتا۔ عوام عملیات کو ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ آسمانی اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عملیات اور تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت 8/335)
عملیات کو مؤثر سمجھنے میں عقیدے کا فساد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے غفلت
اگر عملیات پر جازم (یعنی ایسا پختہ) اعتقاد ہو کہ اس میں ضرور فلاں تاثیر ہے اور اسی پر پوری نظر اور کامل اعتماد ہوجائے تو بھی ناجائز ہے۔ اور یہی مراد ہے اس حدیث سے: مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُکِّلَ إِلَیْہِ۔اور یہ یقینی بات ہے کہ آج کل اکثر عوام عملیات کو ایسا مؤثر سمجھتے ہیں کہ حق تعالیٰ سے بھی غافل اور بے فکر ہوجاتے ہیں۔ اور اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں حتیٰ کہ عامل ان آثار کو قریب قریب اپنے اختیار وقدرت میں سمجھنے لگتا ہے، بلکہ کبھی زبان سے بھی دعویٰ کرنے لگتا ہے کہ میں یوں کردوں گا۔ اور اگر عامل کا ایسا اعتقاد نہ ہوا لیکن (عوام الناس) جاہلوں کا یہ اعتقاد تو ضرور ہوتا ہے (کہ عامل صاحب چاہیں تو سب کچھ کرسکتے ہیں) چوں کہ عامل تعویذ دے کر اس فساد کا زیادہ سبب بنتا ہے۔ ایسے شخص کو (جس کا عقیدہ فاسد ہے) تعویذ دینا بھی درست نہیں معلوم ہوتا، کیوں کہ معصیت (گناہ) کا سبب بننا بھی معصیت ہے۔ (التقی فی احکام الرقی ص 30بحوالہ اشرف العملیات ص80)
مفاسد کی وجہ سے کیا تعویذ کا سلسلہ بند کردینا چاہیے
فرمایا کہ: اصل تو یہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کو بالکل حذف اور مسدود (یعنی اس سلسلے کو بند) کیا جائے لیکن اگر غلبہ شفقت سے کسی مصلح شفیق کو یہ گوارہ نہ ہو تو تدریج سے کام لیا جائے (یعنی آہستہ آہستہ کم کیا جائے) اس کی صورت یہ ہے کہ اس سلسلے کو ظاہراً تو جاری رکھا جائے لیکن ہر طالب سے یہ بھی ضرور کہہ دیا جائے کہ میں اس کام کو نہیں جانتا۔ مگر تمہاری خاطر سے کیے دیتا ہوں چند روز کے بعد یہ سمجھائیں کہ لوگ اس کو جس درجے کی چیز سمجھتے ہیں یہ اس درجے کی چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد ایسا کیا جائے کہ کسی کو دے دیا جائے اور کسی سے عذر کردیا جائے مگر نرمی سے۔ پھر بالکل حذف کردیا جائے۔ (انفاس عیسی 2/505)
© Copyright 2024, All Rights Reserved