• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

وراثت کب تقسیم کرنی چاہیے؟

استفتاء

1۔ وراثت کی تقسیم کب کرنی  چاہیے؟

2۔وراثت کی تقسیم میں دیر  کا ذمہ دار کون ہوگا ؟  والدہ اور وہ  بہن   بھائی جو والد صاحب کے مکان میں رہتے ہیں کیا وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے ؟ اور وراثت تقسیم نہ کرنے پر ان پر کوئی گناہ یا سزا ہوگی؟

3- وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی اگر کسی وارث کا انتقال ہو جائے اور وارث اپنا حصہ  مانگتے مانگتے دنیا سے چلا  جائے تو کیا اس کا حصہ ختم ہو جائے گا یا اس کا حصہ اس کی اولاد کو ملے گا؟

4-وصیت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: 1۔سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟2۔وراثت میں کچھ تھا؟ اور مکان کا رقبہ کتنا ہے؟ 3۔کل ورثاء کتنے ہیں؟

جواب وضاحت: میرے والد صاحب کے انتقال کو تین سال ہو گئے ہیں وراثت میں والد صاحب کا 3 منزلہ 140 گز کا گھر ہے اس کے ایک حصے میں بھائی اور والدہ دوسرے میں ایک بہن بمعہ  فیملی تیسرے میں ایک بہن بمعہ  فیملی، ہم دونوں بہنیں کرائے کے گھر میں ہیں اس لیے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ورثاء میں  ہم چار بہنیں ، ایک بھائی اور  ایک والدہ ہے۔

وضاحت مطلوب ہے: بہن بھائیوں کی تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے ان سے وراثت تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اگر مطالبہ کیا ہے تو انہوں نے آگے سے کیا کہا؟

جواب وضاحت: وراثت تقسیم نہ کرنے کی وجہ پہلے یہ کہا کہ ہم کہاں جائیں گے روڈ پر آجائیں گے پھر کہا کہ اچھی قیمت ملے گی تو فروخت ہوگا ویلیو سے زیادہ گھر کی ڈیمانڈ رکھی ہے اس لیے وہ فروخت نہیں ہو رہا ہم دونوں بہنوں نے وراثت کی  تقسیم کا مطالبہ کیا ہے ہم دونوں بہنوں کو یہ جواب دیا ہے کہ جب مکان فروخت ہوگا تو مل جائے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

2،1۔وراثت کی تقسیم کا دارومدار ورثاء کے مطالبے پر ہے اگر ورثاء  باہمی رضامندی سے وراثت تقسیم نہیں کرنا چاہتے تو شرعاً انہیں اس کا اختیار ہے اور اگر کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ تقسیم کی صورت میں اگر تمام ورثاء کو نقصان ہوتا ہے (مثلا ہر وارث کو اتنا کم حصہ ملے گا کہ وہ اس سے کچھ فائدہ نہ اُٹھاسکے گا جیساکہ  مذکورہ صورت میں ہے) تو اس صورت میں تقسیم کے لیے تمام ورثاء کی رضامندی ضروری ہے اگر تمام ورثاء تقسیم کرنے میں راضی ہوں  تو تقسیم کرنا جائز ہے ورنہ ناجائز ہے ایسی صورت میں  مسئلے کو حل کرنے کی کئی صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری باری تمام ورثاء گھر میں رہیں۔  دوسری صورت یہ ہے کہ  جو وارث اپنے حصے کا مطالبہ کررہا ہے وہ اپنا حصہ  دیگر ورثاء کو یا کسی اور کو بیچ  دے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ یہ وارث   اپنا حصہ دیگر ورثاء  کو کرائے پر دے دے۔

3۔اس کا حصہ ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی اولاد کو اور جو اس کے  شرعی ورثاء ہوں گے ان  کو  ملے گا۔

4۔وصیت بعض اوقات واجب ہوتی ہے جبکہ بندہ کے ذمہ حقوق اللہ یا حقوق العباد  میں سے کچھ ہو ورنہ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی وصیت کرنا جائز ہے لیکن لازم اور ضروری نہیں۔نیز ورثاء پر وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے۔

الدر المختار (ص:631)  میں ہے:

(‌وإن ‌تضرر ‌الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم، وإلا لا

شرح المجلہ (4/78) میں ہے:

المادة 1141 – لا تجري قسمة القضاء في العين المشتركة التي تبعيضها وقسمتها يضر بكل واحد من الشركاء. مثلاً الطاحونة إذا قسمت فلا تستعمل طاحونة. فمن هذا الوجه تفوت المنفعة المقصودة فلا يسوغ للحاكم قسمتها بطلب أحد الشركاء وحده. أما بالتراضي فتقسم

شرح المجلہ (4/114) میں ہے:

المادة 1183 – إذ طلب المهايأة أحد الشريكين في العين المشتركة التي لا تقبل القسمة وامتنع الآخر يجبر على المهايأة.كما يجبر عليها الممتنع في الأعيان المتعددة المتفقة المنفعة بخلافها إذا كانت مختلفة المنفعة – كما تقدم مع بيان وجهه في المادة (1181) وشرحها. وإنما يجبر الممتنع في العين الواحدة التي لا تقبل القسمة لما قدمناه في شرح المادة (1174) من أنه لو لم يجبر على المهايأة فيها لأدى إلى تعطيل الانتفاع فيها مع أنها خلقت لذلك.

شرح المجلہ (2/107) میں ہے:

بيع حصة شائعة معلومة كالنصف  والثلث والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز صحيح.لأنه لا يشترط في صحة البيع الإفراز عند التسليم، لا تفاقهم على صحة بيع مشاع لا يمكن إفرازه كنصف الحمام والطاحون والدابة (رد المحتار) وقيد الحصة بكونها معلومة لأنها لو كانت غير معلومة يفسد البيع لجهالة المبيع، فلو قال الرجل بعتك نصيبي من هذه الدار بكذا، وقبل المشتري ولم يكن عالما بمقدار نصيبه، لا يجوز البيع. وإن علم جاز (خانية وتتارخانية وغيرهما)

شامی (6/47) میں ہے:

وتفسد ايضا بالشيوع الا اذا آجر كل نصيبه او بعضه من شريكه

بدائع الصنائع (4/188) میں ہے:

‌أن ‌إجارة ‌المشاع إنما لا تجوز عند أبي حنيفة إذا أجر الرجل بعض ملكه فأما إذا أجر أحد الشريكين نصيبه فالعقد جائز بلا خلاف

فتاوی شامی (6/801) میں ہے:

فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية)

وفي الشامية: هي مفاعلة من النسخ بمعنى النقل والتحويل والمراد بها هنا أن ينتقل نصيب بعض الورثة بموته قبل القسمة إلى من يرث منه

مجمع الانہر (2/770) میں ہے:

(‌المناسخة) ‌هي ‌مفاعلة من النسخ بمعنى النقل والتحويل والمراد بها ههنا أن ينقل نصيب بعض الورثة بموته قبل القسمة إلى من يرث منه.

شامی (6/648) میں ہے:

‌والوصية ‌أربعة ‌أقسام واجبة كالوصية برد الودائع والديون المجهولة، ومستحبة كالوصية بالكفارات وفدية الصلاة والصيام ونحوها ومباحة كالوصية للأغنياء من الأجانب والأقارب، ومكروهة كالوصية لأهل الفسوق والمعاصي اهـ وفيه تأمل لما قاله في البدائع الوصية بما عليه من الفرائض والواجبات كالحج والزكاة والكفارات واجبة

شامی (6/650) میں ہے:

(‌وتجوز ‌بالثلث ‌للأجنبي)

البحر الرائق (8/460) میں ہے:

أن الوصية بالثلث ‌للأجنبي جائزة.

المبسوط للسرخسی (28/97) ميں ہے:

‌والتصرف ‌المضاف إلى ما بعد الموت يكون وصية فيجب تنفيذها من الثلث والله أعلم بالصواب

الفقہ الاسلامی وادلتہ (10/7733) میں ہے:

‌تنفذ ‌الوصايا من ثلث المال الباقي لامن ثلث أصل المال بعد أداء الحقوق المتقدمة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved