• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت شریعت کے حکم کے مطابق تقسیم ہوگی والد کے کہنے کا اعتبار نہیں

استفتاء

محترم ** مرحوم جن کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں حیات ہیں جو جائیداد کے حقیقی وارث ہیں ۔ ہمارے والد صاحب کی وفات کے بعد کچھ ہمشیروں کا کہنا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہمیں  کہہ گئے  ہیں کہ ہم تمام  جائیداد کے برابر  کے حق دار ہیں جس کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔

جبکہ ہم تین بھائی ایک  ہی گھر میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ساتھ رہائش پزیر ہیں اور ہماری چاروں بہنوں کا تقریباً ہر ہفتے آنا جانا رہتا تھا اور ہمارے آپس میں اچھے تعلقات تھے لیکن  ہماری بہنوں نے ہماری موجودگی میں کبھی والدصاحب کے سامنے اس بات کا ذکر نہیں کیا اور والد صاحب نے ہم چاروں بھائیوں کے ساتھ کبھی ہمشیرہوں کو برابر کا حصہ دینے کا نہیں کہا۔

ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے آٹھوں بچوں کے نام ایک ایک کنال کے پلاٹوں کی رجسٹریاں کروائی اور باقی جائیداد کے متعلق کبھی کوئی وضاحت نہیں کی اور  ناہی کوئی تحریری وصیت کی گئی۔

والدصاحب نے سن 1995ء میں بہنوں  کے نام ایک ایک کنال کی رجسٹریاں کروائی اور اس کے بعد گلشن راوی میں ایک گھر سن  1997 میں خریدا اس کی رجسٹری آٹھوں بچوں کے نام کروائی۔

سن 1997ء میں ہمارے والدصاحب کی عمر الحمدللہ  77 سال تھی اور وہ روزانہ دوکان باہر جایا کرتے تھے دوکان کے تمام معاملات خود سرانجام دیتے تھے ۔ تب اگر وہ چاہتے تو بیٹیوں کو تحریری طور پر جائیداد میں برابر کا حصہ دار بنا سکتے تھے جبکہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ہمارے دادا جان  اور تا یا جان کی وفات کے بعد ہمارے والد صاحب اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے بھائی  ہونے کی حیثیت سے دادا جان کی جائیداد کی تقسیم بھی شریعت کے مطابق کی  گئی۔

ہم چاروں بھائی اس بات پر امادہ  ہیں کہ ہم اپنے والد صاحب کی تمام جائیداد کو شریعت کے مطابق تقسیم کی جانی چاہیے۔

اب تک ہم نے اپنے والدصاحب کی طرف سے دی گئی ایک ایک کنال کی رجسٹریاں دی  گئی تھی۔ اس میں سے چھ کنال کے پلاٹ فروخت کرچکے ہیں اور ہم اس رقم کو آٹھوں  بہن بھائیوں میں برابر کا تقسیم کرچکے ہیں۔

ہم اپنے والد صاحب کی تمام جائیداد  کو جو فروخت  کرچکے ہیں اور جو جائیداد باقی رہتی ہے اس کو موجود ہ قیمت کے حساب سے تمام  جائیداد کو شریعت  کے مطابق تقسیم کرنے پر پابند ہیں۔  برائے مہربانی  ہمارے ان تمام معاملات کو شریعت کے مطابق جو ہونا چاہیے ہماری رہنمائی فرمائی جائے۔

نوٹ: ہمارے والد صاحب نے آٹھوں بچوں کے نام  جن پلاٹوں کی رجسٹریاں کیں ۔ اور جس مکان کی رجسٹری آٹھوں بہن بھائیوں کے نام کی ان میں سے کسی پر بھی کسی کو تقسیم کرکے  قبضہ نہیں دیا۔

1۔ایک مکان   شاہ عالمی   2۔ ایک عدد دوکان   3۔ 10 کنال   جگہ پلاٹ   4۔ ایک عدد پلاٹ گلشن راوی  10 مرلہ  5۔ ایک عدد گھر گلشن راوی ساڑھے بارہ مرلے  6۔نقد رقم  بنک میں جمع  شدہ رقم   7۔ والد صاحب کا   ذاتی کاروبار کی آمدن کی تقسیم کا طریقہ کو واضح فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے : جن پلاٹوں اور مکان کی رجسٹری بہن بھائیوں کے نام کرائی، کیا والد نے کہا تھا کہ یہ ان کو دی یا کچھ نہیں  کہا تھا؟

جواب وضاحت: ہمارے والد صاحب نے اپنی  تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے نام جو رجسٹریاں کی وہ ان کے حوالے  اپنی زند گی ہی میں دے دی تھی۔ اور زبان   سے کچھ کہا  یا نہیں کہا  یاد نہیں۔

نوٹ: ایک بہن کے نام رجسٹری  سرے سے ہے  ہی نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جن پلاٹوں کی رجسٹری والد نے اپنے بیٹے بیٹیوں کے نام کروائی تھی وہ تو آپس میں برابر تقسیم کیے جائیں گے اور باقی  جائیداد میں لڑکے کے دو حصے اورلڑکی کا ایک حصہ ہوگا۔ اگرچہ والد نے اپنے زندگی میں یہ کہا بھی ہوکہ لڑکے لڑکیوں کا حصہ برابر ہوگا۔ کیونکہ شریعت کے بتائے ہوئے حکم کے آگے کسی انسان کی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved