- فتوی نمبر: 10-256
- تاریخ: 06 نومبر 2017
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز وتر کا بیان
استفتاء
مندرجہ ذیل عبارت کے بارے میں وضاحت فرما دیں باحوالہ کہ کیا یہ درست ہے؟
وتر اور اس کی تعداد
وتر ایک بھی پڑھ سکتے ہیں، تین یا اس سے زیادہ پانچ ساتھ اور نو بھی، تین وتر میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھا جائے، تاہم ایک سلام کے ساتھ بھی درمیان میں تشہد کیے بغیر پڑھنا جائز ہے درمیان میں تشہد بیٹھنے سے نماز مغرب سے مشابہت ہو جاتی ہے اور نبی ﷺ نے نماز مغرب کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔ ابو داؤد حدیث: 1422، ابن ماجہ حدیث: 1190، ابن حبان: حدیث 6781، ابن حبان حدیث: 680
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ عبارت میں وتر پڑھنے کے جو طریقے بیان کیے گئے ہیں اس طرح وتر پڑھنا جائز نہیں۔ وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھے جائیں جن میں دو رکعتوں پر قعدہ بھی ہو۔
جس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ موطا امام محمد (2/15، باب السلام فی الوتر، رقم الحدیث: 258) میں ہے:
عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن البتيراء أن يصلي الرجل ركعة واحدة يوتر بها.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بتیراء (دم کٹی) سے منع فرمایا جو یہ ہے کہ آدمی وتر کی ایک رکعت پڑھے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ وتر کی ایک رکعت پڑھنا جائز نہیں۔
2۔ سنن النسائی (1/191) میں ہے:
عن أبي بن كعب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الوتر في الركعة الأولى بسبح اسم ربك الأعلى، وفي الركعة الثانية بقل يا أيها الكافرون، وفي الركعة الثالثة بقل هو الله أحد، ولا يسلم إلا في آخرهن.
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی پہلی رکعت میں ’’ بسبح اسم ربك الأعلى‘‘ (کی سورت) اور دوسری میں ’’ قل يا أيها الكافرون‘‘ (کی سورت) اور تیسری رکعت میں ’’ قل هو الله أحد‘‘ (کی سورت) پڑھتے تھے اور سلام صرف ان کے آخر میں پھیرتے تھے۔
3۔ مستدرک حاکم (1/304) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يسلم في الركعتين الأوليين من الوتر.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
ان دو روایتوں سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیان میں سلام نہیں پھیرتے تھے بلکہ آخر میں سلام پھیرتے تھے۔
4۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ص: 956، رقم الحدیث: 3544) میں ہے:
عن عبد الله قال: أرسلت أمي ليلة لتبيت عند النبي صلى الله عليه وسلم فتنظر كيف يوتر فصلى ما شاء الله أن يصلي حتى إذا كان آخر الليل وأراد الوتر قرأ: بسبح اسم ربك الأعلى في الركعة الأولى وقرأ في الثانية: قل يا أيها الكافرون. ثم قعد، ثم قام ولم يفصل بينهما بالسلام ثم قرأ بقل هو الله أحد الله حتى إذا فرغ كبر ثم قنت فدعا بما شاء الله أن يدعو ثم كبر وركع. إلخ
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو ایک دفعہ رات گذارنے کے لیے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کے یہاں بھیجا تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ آپ وتر کیسے پڑھتے ہیں (آپ کی والدہ فرماتی ہیں کہ) آپ نے نماز پڑھی جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے چاہی حتیٰ کہ جب رات کا اخیر ہو گیا اور آپ نے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں ’’سبح اسم ربك الأعلى ‘‘ اور دوسری میں ’’قل يا أيها الكافرون‘‘ پڑھیں پھر قعدہ کیا پھر قعدہ کے بعد کھڑے ہوئے اور ان کے درمیان سلام کے ساتھ فصل نہیں کیا پھر آپ نے ’’قل هو الله أحد الله‘‘ پڑھی جب آپ قراءت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی اور دعا قنوت پڑھی اور قنوت میں جو اللہ نے چاہا دعا مانگی پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیا۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ تین رکعت وتروں میں درمیانی قعدہ بھی کرتے تھے۔
نوٹ: سائل نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں ’’ثم أوتر‘‘ كا ترجمہ ’’پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر ۔۔۔ الخ‘‘ کرنا غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ’’پھر آپ ﷺ نے وتر پڑھے‘‘ اس حدیث میں ایک رکعت وتر کا تذکرہ نہیں اور نہ ہی اس حدیث سے ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
نیز مغرب سے مشابہت کی ممانعت والی روایت کا یہ مطلب نہیں کہ درمیان میں تشہد نہ کیا جائے کیونکہ یہ مطلب اس حدیث کے خلاف ہو گا جس میں وتروں میں درمیانی تشہد کا ذکر ہے اور ایک حدیث کا ایسا مطلب لینا جو دوسری حدیث کے خلاف ہو، درست نہیں۔ لہذا مغرب سے مشابہت والی روایت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جیسے مغرب سے پہلے نفل پڑھنا مطلوب نہیں بلکہ بعض حالات میں مکروہ بھی ہے اس طرح وتروں کو نہ بناؤ بلکہ وتروں سے پہلے کچھ نہ کچھ نفل پڑھ لو۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ جو آٹھویں صدی کے عالم ہیں وہ اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
فإن قلت روي عن أبي هريرة عن النبي قال لا توتروا بثلاث وأوتروا بخمس أو بسبع ولا تشبهوا بصلاة المغرب قلت روي هذا موقوفا على أبي هريرة كما روي مرفوعا ومع هذا هو معارض بحديث علي وعائشة ومن ذكرنا معهما من الصحابة وأيضا إن قوله لا توتروا بثلاث يحتمل كراهة الوتر من غير تطوع قبله من الشفع ويكون المعنى لا توتروا بثلاث ركعات وحدها من غير أن يتقدمها شيء من التطوع الشفع بل أوتروا هذه الثلاث مع شفع قبلها لتكون خمسا وإليه أشار بقوله واوتروا بخمس أو أوتروا هذه الثلاث مع شفعين قبلها لتكون سبعا وإليه أشار بقوله أو بسبع أي أوتروا بسبع ركعات أربع تطوع وثلاث وتر ولا تفردوا هذه الثلاث كصلاة المغرب ليس قبلها شيء وإليه أشار بقوله ولا تشبهوا بصلاة المغرب ومعناه لا تشبهوا بصلاة المغرب في كونها منفردة عن تطوع قبلها وليس معناه لا تشبهوا بصلاة المغرب في كونها ثلاث ركعات والنهي ليس بوارد على تشبيه الذات بالذات وإنما هو وارد على تشبيه الصفة بالصفة. (عمدة القاري: 8/371، كتاب الصلاة، باب: 84
© Copyright 2024, All Rights Reserved