- فتوی نمبر: 31-59
- تاریخ: 26 اپریل 2025
- عنوانات: عبادات > طہارت > وضوء کا بیان
استفتاء
1۔کیا وضو کے بعد بچے ہوئے پانی کو پینے کا حکم ہے؟
2۔کیا یہ پانی کھڑے ہو کر پیا جائے ؟
3۔کیا اس میں شفاء ہے؟
4۔ کیا یہ امر سنت ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔وضو کے بعد وضو کے بچے ہوئے پانی کو پینے کا حکم تو نہیں ہے تاہم چونکہ اس میں برکت اور شفاء ہے اس لیے اس پانی کو یا اس میں سے کچھ کو پینا مستحب ہے۔
2۔یہ پانی بھی بیٹھ کر پیا جائے جیسا کہ زمزم کا پانی بیٹھ کر پینا چاہیے تاہم چونکہ اس پانی کو اور زمزم کے پانی کو کھڑے ہو کر پینا بھی ثابت ہے (خواہ عذر کی وجہ سے ہو )اس لیے کھڑے ہو کر پینے کو بھی خلاف اولیٰ یا مکروہ تنزیہی نہ کہا جائے گا۔
3۔بعض اہل علم نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے کہ اس میں شفاء ہے تاہم شفاء کا ہونا کسی حدیث میں مذکور نہیں ۔
4۔اس امر کو سنت نہیں کہا جا سکتا۔
سنن الترمذی (رقم الحدیث:48)میں ہے:
عن أبي حية،قال:رأيت عليا توضأ، فغسل كفيه حتى أنقاهما، ثم مضمض ثلاثا، واستنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا، ومسح برأسه مرة، ثم غسل قدميه إلى الكعبين، ثم قام فأخذ فضل طهوره فشربه وهو قائم»، ثم قال: أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم.
مرقاة المفاتيح (رقم الحدیث:410)میں ہے:
(ثم قام) : أي: علي (فأخذ فضل طهوره) بفتح الطاء لا غير، قاله الكازروني أي: بقية مائه الذي توضأ به (فشربه وهو قائم):الجملة حال. قال ابن الملك: أما شرب فضله فلأنه ماء أدى به عبادة وهي الوضوء، فيكون فيه بركة فيحسن شربه قائما تعليما للأمة أن الشرب قائما جائز فيه (ثم قال):أي: علي(أحببت أن أريكم كيف كان طهور رسول الله صلى الله عليه وسلم).قال ابن الملك: بضم الطاء أي وضوءه وطهارته، وفي بعض النسخ بالفتح، والتقدير استعماله أو هو بمعنى الضم كما تقدم، والظاهر أنه لا يريد على أنه كان وضوءه دائما على هذا التفصيل بل مراده بيان الهيئة الإجمالية في الأفعال المرئية، فلا ينافي ما ورد عنه عليه الصلاة والسلام في بعض الراويات من اختلاف المرات،أو أريد ما استقر في الشرع وضوءه أو ما وقع منه في أواخر عمره، والله تعالى أعلم.
رد المحتار مع الدر المختار (1/ 130) میں ہے:
(وأن يشرب بعده من فضل وضوئه) كماء زمزم (مستقبل القبلة قائما) أو قاعدا، وفيما عداهما يكره قائما تنزيها.
والحاصل أن انتفاء الكراهة في الشرب قائم في هذين الموضوعين محل كلام فضلا عن استحباب القيام فيهما، ولعل الأوجه عدم الكراهة إن لم نقل بالاستحباب لأن ماء زمزم شفاء وكذا فضل الوضوء.
قال الرافعى:قوله أفاد أن المقصود من قوله قائما عدم الكراهة(فيه أن صريح كلام المصنف أن الشرب قائما مستحب لأنه في صدد عد المستحبات،لا في بيان عدم الكراهة.
ہندیہ(1/8) میں ہے:
(وها هنا سنن وآداب ذكرها المشايخ) … وأن يشرب قطرةً من فضل وضوئه مستقبل القبلة قائماً.
الدر المختار (1/129)میں ہے:
(ومن آدابه) … وأن يشرب بعده من فضل وضوئه) كماء زمزم (مستقبل القبلة قائماً) أو قاعداً.
حاشية ابن عابدين (1/ 130)میں ہے:
وفي شرح هدية ابن العماد لسيدي عبد الغني النابلسي: ومما جربته أني إذا أصابني مرض أقصد الاستشفاء بشرب فضل الوضوء فيحصل لي الشفاء.
حاشية ابن عابدين (1/ 130)میں ہے:
لأن ماء زمزم شفاء وكذا فضل الوضوء.
فتاوی محمودیہ(8/104)میں ہے:
وضو کا بچا ہوا پانی پینا مطلقا مستحب ہے خواہ کھڑا ہو کر پئیے یا بیٹھ کر۔
احسن الفتاوی(4/530)میں ہے:
سوال:وضو سے بچا ہوا پانی اور ماء زمزم قائما پینا سنت ہے یا مستحب ؟
جواب:فضل وضووماء زمزم قائما پینے کی کراہت و استحباب میں اختلاف ہے،راجح یہ ہے کہ بلا کراہت جائز ہے مگر مستحب نہیں۔
مسائل بہشتی زیور(1/43) میں ہے:
وضو سے فارغ ہو کر وضو کا بچاا ہوا سارا یا کچھ پانی کھڑے ہو کر پینا،بیٹھ کر پیئے گا تو اس سے بھی استحباب حاصل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved