- فتوی نمبر: 29-185
- تاریخ: 25 جولائی 2023
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
ميرے چاچو 13 سال پہلے فوت ہوچکے ہیں اور چاچی نے دوسری شادی کرلی تھی تو ان کے دو بچےہیں جو میرے پاس ہیں ، ایک سولہ سال کا ہے اور دوسرا تیرہ سال کا ہے جس پر بلوغت کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی اور ان کی ڈیڑھ ایکڑ زمین ہے جو ٹھیکے پر دی جاتی ہے اور ٹھیکہ سے حاصل ہونے والی رقم سے صرف سال بعد تیس من گندم آتی ہے یعنی ہم رقم کے عوض زمین ٹھیکہ پر دیتے ہیں لیکن ٹھیکہ دار سے اس رقم کے عوض اپنی زمین سے اگنے والی گندم لے لیتے ہیں تو وہ ہم سب گھر والے استعمال کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: کیا آپ کے مالی حالات ٹھیک ہیں؟
جواب وضاحت: زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، البتہ قربانی کرتے ہیں یعنی درمیانی درجہ کے حالات ہیں۔
مزید وضاحت: بچوں کی آمدنی فی الحال تقریباً اوسطاً پانچ ہزار روپے ماہانہ فی بچہ آتی ہے جبکہ فی بچہ ماہانہ خرچ کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگرچہ گندم بچوں کی ملکیت ہے (کیونکہ اجرت میں قبضہ سے قبل استبدال کی وجہ سے خود گندم اجرت بن گئی اور بچوں کی ملکیت ٹھہری) لیکن چونکہ آپ ان بچوں کی دیگر ضروریات پر جوخرچہ کرتے ہیں وہ ان کی اس گندم سے کہیں زیادہ ہے اس لیے مذکورہ صورت میں عرف وتعامل کی وجہ سے آپ ان بچوں کی گندم استعمال کرسکتے ہیں۔
امداد الاحکام (4/425) میں ہے:
سوال : زید کا نابالغ لڑکا تالاب سے سیر دوسیر کے قریب مچھلیاں پکڑ کر لاتا ہے جس کو زید اور گھر کے سب لوگ مل کر کھاتے ہیں تو یہ کھانا جائز ہے یا نا جائز؟ اگر ناجائز ہے تو پھر کیسے کھاویں کیونکہ یہ بات میرے اوپر بھی اکثر ہوا کرتی ہے۔
الجواب: مباح مچھلیاں پکڑنے والے کی ملک ہو جاتی ہیں اس لئے نابالغ نے جو مچھلیاں پکڑی ہیں وہ اس کی ملک ہو گئی اگر اس کے والدین غریب ہیں تو ان کو کھانا بالاتفاق جائز ہے اور اگر والدین امیر ہیں تب بھی امام محمدؒ کے قول کے موافق حلال ہے۔ بناءً على التعامل فى الشامية : ولو أمر صبيا أبوه اوامه باتيان الماء من الوادى أو الحوض في كوز فجاء به لا يحل لا بويه ان يشربا من ذلك الماء إذ الم يكونا فقيرين لان الماء صار ملكه ولا يحل لهما الأكل من ماله بغير حاجة وعن محمد يحل لهما ولو غنيّين للعرف والعادة حموى عن الدراية وفي هذين الفرعين حرج عظيم اه قلت والحرج مدفوع ويتأيد قول محمد بان نفقة الصبي على الوالدين انما اذا كان لا يملك شيئًا فاذا ملك شيئا سقط النفقة عنهما بقدره فما زاد من السمك يأكله الوالدان بعوض ما يأكله الصبى من مالهما والله اعلم . والاحوط أن يؤديا اليه القيمة أو شيئًا بعوضه ثم يأكلان . فقط
وقال العلامة العيني في العمدة تحت حديث انس كان النبي صلی الله علیه وسلم اذا خرج لحاجة أجى أنا وغلام معنا اداوة من ماء يعني يستنجى به الخ ما نصه، الثاني فيه استخدام الرجل الصالح الفاضل بعض اتباعه الاحرار خصوصا اذا ارصدوا لذلك والاستعانة في مثل هذا فيحصل لهم الشرف بذلك وقد صرح الروياني من الشافعية بانه يجوز ان يعير ولده الصغیر ليخدمه من يتعلم منه وخالف صاحب العدة فقال ليس للأب ان يعير ولده الصغير لمن يخدمه لان ذلك هبة لمنافعه فا شبه اعارة ماله واوله النووى في الروضة فقال هذا محمول على خدمة تقابل باجرة اما ما كان لا يقابل بها فالظاهر والذى يقتضيه اقوال السلف ان لا منع منه وقال غيره من المتأخرين ينبغى تقيد المنع بما اذا انتفت المصلحة اما اذا وجدت كما لو قال لولده الصغير اخدم هذا الرجل في كذا لتتمرن على التواضع ومكارم الاخلاق فلا منع منه و هو حسن ( ج ۷۲۰/۱) قلت فلما جازت الخدمة المتقومة اذا كان فيها مصلحة جاز أكل ما يأتيه الصبى من السمك لوالديه وفى الدرويباح لوالديه أن ياكلا من مأكول وهب له وقيل لا انتهى.وان غير الماكول لا يباح لهما الالحاجة.
قال الشامي: قال فى التاترخانية روى عن محمد نصا انه يباح اه ( ج 784/4)
قلت والاوسع قول محمد رحمه الله تعالى والأحوط الاحتراز عن مثل ذلك والله الموفق وهو ا علم و علمه اتم واحكم
ان عبارات سے معلوم ہوا کہ نابالغ جو مچھلیاں پکڑ کر لائے ان کا کھانا ولی کوامام محمدؒ کے قول پر مباح ہے اور غیر ولی کو بھی مباح ہے اگر ولی نے نابالغ سے اس قسم کی خدمت لینے کی اس کو اجازت دے رکھی ہو باقی احوط یہ ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے کیونکہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved