• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"یہ میرے ساتھ نہ گئی تو میرے لیے یہ بہن کے برابر ہوگئی”

استفتاء

۱۔ ایک لڑکی کی شادی اس کے والدین نے اپنی مرضی سے کی لڑکی کی رضامندی شامل نہ تھی۔

۲۔ شادی کے کچھ عرصہ کے بعد گھریلو نا چاقیوں کی وجہ سے لڑکا بیوی کو پکڑ کر والدین کے گھر چھوڑ گیا اور کہا ” یہ اب میری بیوی نہیں ہے اور میں آئندہ اس کو کبھی لینے نہ آؤنگا۔

۳۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لڑکا لڑکی کو لینے کے لیے سسرال آیا اور لڑکی کو ساتھ جانے کو کہا تو لڑکی کے انکار پر لڑکے نے قسم دیکر کہا اگر” یہ میرے ساتھ نہ گئی تو میرے  لیے یہ بہن کے برابر ہو گئی” اور دو چار دفعہ سسرال آکر یہ بات بھی کہہ چکا، اگر یہ "فلاں  تاریخ کو میرے ساتھ گھر نہ گئی تو پھر یہ میری بیوی نہیں " اور لڑکی نے ہر دفعہ جانے سے انکار کیا۔

۴۔ اسی طرح یہ لڑکا کافی مجالس میں لڑکی کو طلاق اور چھوڑنے کا اقرار کر چکا اور لڑکے ان مذکورہ اقوال و افعال پر کثیر گواہ موجود ہیں۔

۵۔ اور اس معاملے کو تقریباً پندرہ سال گذر گئے۔

۶۔ اور اس عرصہ طویل کے گذرنے میں لڑکے کے چچا جو کہ لڑکی کے بھی چچا ہیں وہ رکاوٹ ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عورتوں کو چھوڑنے کا رواج نہیں ہے اور لڑکی کو مجبور کرتے ہیں کہ لڑکے کے ساتھ جاؤ، لیکن لڑکی کا کہنا ہے کہ میں اپنے آپ کو گناہ میں نہیں ڈال سکتی تو چچاؤں کا یہ فعل کیسا ہے؟

۷۔ اب جب مقامی علماء سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ طلاق واقع ہوگئی ہے اور دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔تو اس پر لڑکے کے بھائی نے آگے سے یہ کہا کہ جو اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرے گا میں اس کو مار دوں گا۔ اور اپنے بھائی کو کہا کہ اگر تو نے طلاق دے دی تو تجھے بھی مار دوں گا۔ اور اس کے  ساتھ ہی اس  کو منع کر دیا کہ تو نے کہنا ہے کہ میں نے طلاق دی  ہی نہیں۔ اب اس پر وہ لڑکا اپنے قول و فعل سے منکر ہوگیا اور قسم اٹھانے کو تیار  ہوگیا کہ میں نے اس کو طلاق نہیں دی۔ تو آیا ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

لڑکے کے بھائی کا قتل کی دھمکی دینا بڑے گناہ کی بات ہے۔ اور واقعی قتل کرنا تو بہت سنگین گناہ ہے پھراس دھمکی سے حرام و حلال کی تمیز نہ کرنا اور جھوٹ بولنے پر  مجبور کرنا یہ بھی بہت برا کام۔ آدمی کو خدا سے ڈرنا چاہیے۔ آخر ایک دن مرنا ہے۔

مذکورہ صورت میں شوہر کے ان الفاظ سے کہ” اگر یہ میرے ساتھ نہ گئی تو میرے لیے یہ بہن کے برابر ہو گئی” ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے اور ایک طلاق بائن کے بعد اگر مرد و عورت دونوں راضی ہوں تو آپس میں دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں لیکن عورت کو مجبور کر کے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ جب لڑکی راضی نہیں تو نکاح کرنا ہی غلط تھا۔ جب ان کے دل نہیں ملے اور زندگی مشکل ہو جائے تو دین  نے اسی لیے طلاق کا حکم لگایا ہے تاکہ زوجین علیحدہ رہ سکیں۔

و إن نوى بأنت علي مثل أمي أو كأمي وكذا  لو خذف على برا أو ظهارا أو طلاقاً صحت نيته ووقع ما نواه لأنه كناية و إلا ينو شيئا أو خذف الكاف لغا و تعين الأولى أي  البر يعني الكرامة، و في الشامية: و ينبغي أن لا يصدق قضاءً في إرادة البر إذا كان في حال المشاجرة و ذكر الطلاق. (شامی، 5/ 132 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved