- فتوی نمبر: 4-22
- تاریخ: 16 اپریل 2011
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا اور انہوں نے ورثاء میں والدین ( جس میں ان کی والدہ کا انتقال پہلے اور والد کا انتقال بعد میں ہوا)، دو بھائی، سات بہنیں، پانچ بیٹے، چار بیٹیاں اور ایک بیوی چھوڑی۔جبکہ وراثت میں ایک مکان اور کچھ مال ، اور یک دکان چھوڑی۔ مکان مذکور اور دکان والد صاحب کو دادا نے اپنی زندگی میں مالک بنا کر دی تھی اور کاغذات وغیرہ بھی والد صاحب کے نام پرتھے، اور اس میں رہائش بھی والد صاحب کی تھی مگر ہمارے دادا، دادی اور دو چچا بھی اس گھر میں رہائش پذیر تھے، لیکن مکمل تخلیہ کر کے قبضہ نہیں دیا۔ اور مسئلہ معلوم نہ ہونے کے سبب کوئی حیلہ بھی نہیں کیا۔ لیکن زبانی کہہ دیا تھا کہ "یہ مکان میرے بیٹے وزیر کا ہے”۔ چچا سے زبانی طور پر معلومات کی تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے والد صاحب کے انتقال کے بعد دادا، دادی کا گھر یا مال میں جو حصہ بنتا تھا اسے لینے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بلکہ انہوں نے پورے مکان اور مال کا مالک بچوں اور ان کی والدہ ہی کو بنا دیا تھا، تو کیا:
۱۔ یہ تملیک تام ہوئی یا نہیں؟ جبکہ آج کل ایسے ہی ہبہ کا رواج ہے۔
۲۔ اگر تملیک تام نہیں ہوئی اور مکان دادا کا ترکہ بن گیا تو ہم نے اس کی ایک دکان تیرہ لاکھ میں فروخت کی اور یہ رقم کاروبار میں لگائی جس کی موجودہ مالیت اس رقم سے زائد ہے ، تو کیا یہ رقم ترکہ بنے گی یا اس کے منافع بھی؟ اگر صرف یہ رقم ہی ترکہ بنتی ہےتو اس کا نفع ہمارے لیے حلال ہوگا یا کسب خبیث بن کر واجب التصدق ہوگا؟
۳۔ اگر یہ مکان اور دکان فروخت کردہ کی قیمت مذکورہ بالا منافع سمیت یا بغیر منافع کے دادا کا ترکہ ہے تو ان کے ورثاء یعنی ہمارے چچا، سات پھوپھیوں سے صلح بالمال اجمالی طور پر کافی ہوگی یا ان کا حق وراثت بتا کر اور ان کے سہام کی مالیت بتا کر صلح کرنی ہوگی؟
۴۔ اگر وہ دستبردار ہو نا چاہیں ( بغیر کچھ لیے) تو کیا قبضہ کرنا پھر ہبہ صحیحہ کرنا، یا خرید کر قیمت سے بری کرنا ضروری ہوگا یا ویسے ہی دستبردار ہونا کافی ہوگا؟
۵۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد دکان کی آمدن سے ہم نے اخراجات کیے، شادیاں کیں، سونا بنوایا اپنے لیے اور بہنوں کے لیے تو کیا یہ سب ترکہ ہوگا؟ اگر ہوگا تو موجودہ سونے کی اور دیگر خرید کردہ اشیاء کی قیمت خرید ترکہ ہوگی یا موجودہ مالیت؟
۶۔ والد صاحب کے کاروبار سامان میں دادا، دادی کا حصہ وراثت جو اب چچا اور پھوپھیوں کا بن چکا ہے، انتقال کے وقت موجود مقدار میں ہوگا یا بعد کے ۔۔۔میں بھی ہوگا؟
۷۔ اگر بعد میں ہونے والے اضافہ میں بھی ان کا حصہ ہے تو کیا کام کرنے والوں کے لیے اجرت مثل ہوگی یا نہیں؟ جبکہ معلوم ہونے کی صورت میں کوئی یہ کام کرنے پر تبرعا آمادہ نہیں ہوتا۔
تنقیح: جب دادا نے والد صاحب کو دکان دی تھی تو وہ کرایہ پر تھی اور والد صاحب کے انتقال کے بعد تک کرایہ پر ہی رہی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت میں اگر چہ قبضہ حقیقی تو نہیں پایا گیا لیکن چونکہ دادا نے زبانی ہبہ کے ساتھ والد کے نام رجسٹری بھی کرادی تھی جوکہ قبضہ کے قائم مقام ہے اس لیے یہ ہبہ تام ہے۔ چنانچہ امداد الاحکام میں ہے:
” میرے خیال میں کسی شخص کو یہ معلوم ہوجانا کہ فلاں فلاں نمبر زمین کا میرا ہے اور اس کے نام داخل خارج کا غذات میں ہوجانا قبض عقار کے لیے کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ورنہ تو اراضی مقبوضہ کا تحقق بہت کم ہوگا۔ "و فيه من الحرج مالا يخفى”. (4/ 49 )
2۔ آپ کے والد کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں سے دادا، دادی کا جو حصہ بنتا تھا وہ انہوں نے مرحوم کی بیوہ اور اولاد کوہبہ کردیا تھا یہ اگر چہ ہبتہ المشاع ہے جوکہ فاسد ہوتا ہے لیکن ایک روایت جس پر بعض علماء نے فتویٰ بھی دیا ہے یہ ہے کہ ہبتہ المشاع اس وقت فاسد ہوتا ہے جب اجنبی کو کیا جائے، لیکن شریک جائیداد کو ہبہ بدون تقسیم بھی صحیح ہے۔
لا تتم الهبة بالقبض فيما يقسم و لو وهبه لشريكه أو لأجنبي … و في الصيرفية عن العتابي و قيل يجوز لشريكه و هو المختار. (رد المختار: 8/ 576 )
امداد الاحکام میں ہے:
” غالباً آج کل تقسیم جائیداد میں جس قدر خرچ اور پریشانی ہوتی ہے وہ مجبوری اور دشواری کی حد میں داخل ہے اس لیے ۔۔۔۔۔ اگر اس روایت پر عمل کر کے شریک کے لیے ہبہ بدون تقسیم کے صحیح کہا جائے تو گنجائش ہے”۔ ( 4/ 38 )۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved