- فتوی نمبر: 3-177
- تاریخ: 16 مئی 2010
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
1۔ **کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔
2۔ انہوں نے اپنی موت سے تقریباً آٹھ سال پہلے اپنا ذاتی رہائشی مکان اپنے تین پوتوں کے نام اس بناء پر ہبہ کر دیا کہ انہوں نے زید کی سال ہا سال خدمت کی، باقی تمام اولاد نے دستور زمانہ کے مطابق اپنی رہائشیں علیحدہ علیحدہ کر لیں۔ یہ پوتے اور ان کے ماں باپ زید کے ساتھ مقیم رہے۔ اور ان کی خدمت کرتے رہے۔
3۔**ذاتی طور پر انتہائی متقی اور دین سے واقف باعمل مسلمان تھے۔
4۔ ** انتہائی شفیق باپ تھے، اور انہوں نے اپنی تمام زندگی میں اپنی اولاد میں سے جس کسی کو بھی کسی قسم کی مدد یا سرپرستی کی ضرورت پڑی انہوں نے فراخدلی سے ان بچوں کی مدد کی۔ انہوں نے کچھ بچوں کو رہائش کے لیے مکان خرید کر دیے۔ کچھ بچوں کی اولاد کو بیرون ملک تعلیم کے لیے اخراجات دیے۔ وغیرہ وغیرہ۔
5۔ جس وقت** نے اپنا مکان تین پوتوں کو ہبہ کیا اس وقت وہ تندرست و توانا تھے اور ان کے حواس بالکل قائم تھے۔
6۔ واضح رہے کہ ہبہ ہونے والا مکان نقشہ کے اعتبار سے ناقابل تقسیم تھا اس لیے**کے اس مکان کو جمہ حیثیت میں اپنے تینوں پوتوں کو بحصہ برابر ہبہ کیا۔
7۔ مکان ہبہ کرنے کے بعد انہوں نے انتہائی احتیاط کرتے ہوئے اپنی بیوی جو ان کے بعد خاندان کی بزرگ تھیں، بڑے داماد جو انتہائی معتبر، تجربہ کار، دیندار اور صاحب الرائے شخصیت ہیں اور دوسرے داماد جو اپنی ذات میں نیکی اور پاکدامنی کی مثال تھے ان تین شخصیات کو اس ہبہ نامہ پر تحریری گواہ بنایا۔
8۔ اس ہبہ نامہ کے بعد**نے اس مکان کا قبضہ اپنے تین پوتوں کو دے دیا۔ تینوں پوتوں نے اس ہبہ کو قبول کیا **اور ان کی بیوی اس کے بعد کچھ عرصہ اپنے پوتوں کے ساتھ اسی مکان میں مقیم رہے۔
9۔**مکان کو ہبہ کرنے کے بعد آٹھ دس سال زندہ رہے۔ ان کی آٹھ بچوں کو معلوم تھا کہ ** نے یہ مکان اپنے پوتوں کو ہبہ کر دیا ہے۔ ان میں سے کسی نے ہبہ کے اس عمل پر کسی قسم کا تحریری یا زبانی
اعتراض نہیں کیا۔** کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد تک کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
10۔ **کی وفات کے تقریباً ایک سال بعد کیا زید کا کوئی وارث یہ کہہ سکتا ہے کہ **کو یہ مکان اپنے تین پوتوں کو ہبہ کرنے کا حق نہ تھا یا یہ کہ ہبہ کا یہ عمل غیر شرعی تھا۔ اور یہ کہ اس مکان کو قابل تقسیم ورثہ میں شامل ہونا چاہیے اور وارثوں کو اس میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ واضح رہے کہ** کے آٹھ وارثوں میں سے سات اس ہبہ کو برضا و رغبت قبول کر چکے ہیں۔ صرف ایک وارث نے اعتراض کیا ہے۔
تنقیحات: 1۔ پوتوں کو قبضہ دینے کی کیا صورت اختیا ر کی؟
2۔ مکان کا کل رقبہ کتنا تھا؟
3۔ جو وارث یہ کہتا ہے کہ اس مکان کو قابل تقسیم ورثہ میں شامل ہونا چاہیے وہ اپنے اس موقف پر کیا دلائل رکھتا ہے؟
جوابات: 1۔ ہبہ نامہ تحریر کرنے کے بعد خاندان کے مذکورہ تین بزرگوں کی گواہی ڈلوائی گئی، اور کہا گیا کہ اب یہ مکان ان بچوں کا ہے جو پہلے سے اس مکان میں رہ رہے ہیں۔
2۔ مکان کا رقبہ تقریباً بارہ مرلہ تھا۔
3۔ مکان کی رجسٹری پوتوں کے نام کرا دی تھی جو اس وقت تینوں نا بالغ تھے۔
4۔ جو وارث یہ کہتا ہے کہ اس مکان کو قابل تقسیم ورثہ میں شامل ہونا چاہیے وہ یہ دلیل رکھتا ہے کہ میں وارث ہوں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ ہبہ نامہ لکھوایا اور اس پر تحریری گواہ بھی بنائے۔ اور رجسٹری بھی اس کے نام کروا دی تو ہبہ مکمل ہو گیا اب اس میں کسی اور کا حق نہیں رہا۔
جو جائیداد قابل تقسیم ہو اگر کوئی اس کو مشترکہ طورپر دو یا زائد کو ہدیہ کردے تو امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved