- فتوی نمبر: 3-172
- تاریخ: 25 جون 2010
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ایک شخص ایک مدرسہ میں مدرس ہے اور صبح تعلیمی اوقات سے رات دس بجے تک مدرسہ کی خدمات سرانجام دیتا ہے۔ شروع سے معاملہ یہ طے ہوا کہ ناظم مدرسہ کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ نماز فجر کے بعد درس قرآن دیں جبکہ مذکورہ مدرس کی فراغت بھی نہیں ہوئی تھی۔ پھر پندرہ بیس دن بعد جہری نمازوں کی امامت بھی مذکورہ مدرس کے ذمہ لگادی گئی۔ پھر تقریباً ایک سال بعد کل نمازوں کی امامت مذکورہ مدرس کی ذمہ لگا دی گئی۔ پھر دو سال بعد مدرسہ کے حساب کنندہ کی تبدیلی ہوئی اور حساب کنندہ کی ذمہ داری بھی مذکورہ مدرس کے سپر د کردی گئی۔ مگر مذکورہ مدرس نے اس روز سے حساب کنندہ کی ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کر لی ا ور اس کے بعد بھی بارہا معذرت کی۔ لیکن اس معذرت کو خاطر میں لائے بغیر یہ ذمہ داری مدرس مذکور پر ناظم مدرسہ کی طرف سے ڈال دی گئی اور اس ذمہ داری کی کوئی اجرت بھی نہیں طے کی گئی۔ مذکور مدرس کے سر پر ذمہ داری آنے کے بعد مذکور مدرس نے رسیدوں کاحساب پور ا پورا رکھا۔ جو کہ آمدنی کے اعتبار سےتھا۔ لیکن اخراجات کا حساب بر وقت درج نہ کرنے کی وجہ سے کچھ رقم لا پتہ ہو گئی۔ پھر جن ناظم صاحب نے مدرس مذکور کو یہ ذمہ داری ادا کرنے پر مجبور کیا تھا انہوں نے ناظم اعلیٰ مدرسہ سے کہا کہ مذکور مدرس کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا جائے کیونکہ مدرس مذکور کا اس ذمہ داری کے نبھانے میں کافی نقصان ہے کیونکہ وہ ایک دفعہ پچاس ہز ار کا ضمان ادا کر چکے ہیں۔ اور اگر آئندہ بھی یہ خدمت ان کے ذمہ رکھی جاتی ہے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ آئندہ بھی اس مدرس کو ضمان اٹھانا پڑے جس میں اس کا نقصان ہوگا۔ لیکن ناظم صاحب کی مذکورہ عرض کو مھتمم نے قبول نہ کیا اور اس موقعہ پر مدرس مذکور کی جانب سے بھی مہتمم صاحب کے سامنے اس خدمت کے متعلق معذرت کی گئی لیکن اس کی بھی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مدرس مذکور سے حساب وکتاب کے دوران کچھ رقم لا پتہ ہوگئی۔ جس کی وجہ سے مھتمم صاحب نے مدرس مذکور کی تنخواہ ضمان وصول کرنے کی خاطر روک لی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مذکور مدرس اس لا پتہ رقم کا ضامن ہے؟ اور کیا مھتمم صاحب مدرس مذکور کی تنخواہ بطور ضمان روکنے کے مجاز ہیں؟ امید ہے کہ جناب مدرس مذکور کی تشفی فرمائیں گے۔
وضاحت: مدرس صاحب کے بقول چار پانچ سال کی مدت میں کسی نہ کسی مہینہ میں کبھی ڈیڑھ ہزار یا دو ہزار ان کے مصارف میں خرچ کردینے کے باوجود برو قت حساب درج نہ کر نے کی وجہ سے لاپتہ ہو گئے جو کہ اب چار پانچ سال بعد تیس پینتیس ہزار بنتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر یہ سچ ہے کہ مدرس نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا تھا پھر زبردستی اس کو دی گئی تو تاوان مھتمم کے ذمہ آئے گا۔ مدرس کے ذمہ نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved