• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبردستی تحریری طلاق

استفتاء

میں ***ولد ***نے 2007۔ 11۔12 کو اپنے والدین کی مرضی کے خلاف کورٹ میں شادی کی اور میرے رشتہ داروں کے ساتھ میرا معاملہ کافی خراب ہوا۔ پولیس اسٹیشن تک بات گئی۔ اور  S-H-O نے ہمارا نکاح نامہ پڑھ کرہمیں جانے دیا، اور کہا کہ میں  ان سب لوگوں کے خلاف F-I-R کٹواؤں، مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ اور اپنے ایک دوست کے گھر چلاگیا۔ ہم میاں بیوی تقریباً بیس ، بائیس دن اکھٹے رہے۔ اس کے بعد میرے رشتہ داروں نے مجھے کہا کہ گھر آجاؤ۔ اس معاملے کو بیٹھ کر سلجھا لیتے ہیں۔ میں اپنی آنٹی کے گھر آگیا، وہاں تقریباً رات 3 بجے  کچھ لوگ جن میں میرے  والد صاحب بھی شامل تھے زبردستی کمرے میں گھس گئے اور ہمیں اٹھا کر علیحدہ علیحدہ جگہوں پر قید کر دیا۔ اور تقریباً پندرہ  بیس  دن تک زبردستی طلاق  پر آمادہ کر تے رہے، اس کے لیے میرے والدین  اور رشتہ داروں نے ہر حربہ استعمال کیا، مارا، پیٹا اور قتل کی دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن میں طلاق پر آمادہ نہیں ہوا۔ مجھے میری بیوی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ میں کیسے اپنی بیوی سے ملوں اور اس کا احوال معلوم کروں، تو میں نے اپنے رشتہ داروں کو کہا کہ میں اپنی بیوی کو چھوڑدوں گا، اگر وہ خود مجھ سے اس بات کا مطالبہ کرے تو  ورنہ نہیں۔ میرے رشتہ داروں نے قرآن پر مجھ  سے حلف لیا کہ میں طلاق دوں گا، مگر میں نے کہا کہ اگر میری بیوی مجھ سے مطالبہ کرے گی تو  ورنہ نہیں، لیکن میرا مقصد چھوڑنا نہیں تھا۔ بلکہ اپنی بیوی کو دیکھنا  اور اس کو تسلی دینا تھا۔

میرے رشتہ دار اس بات پر آمادہ ہو گئے۔ اور میری طرف سے کچھ مطمئن ہو گئے کہ شاید اب میں ان کی بات مان لوں گا۔ میں اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ دسمبر کی رات تھی اور میرے پاؤں میں نہ تو جوتا تھا اور نہ ہی شلوار قمیض کے علاوہ جسم پر کوئی اور کپڑا رات تین بجے کے قریب میں نے تقریباً پندرہ بیس کلو میٹر کا پیدل سفر کیا۔ اور ان کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کی، مگر پاؤں میں چھالے پڑنے کی وجہ سے چل نہیں سکا۔ اور میرے رشتہ دار مجھ تک پہنچ گئے اور دوبارہ اٹھا کر مجھے میرے گھر لے گئے اور کچھ دیر کے بعد میری بیوی نے بتایا کہ باہر میرے رشتہ دارکھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ( خنجر اور پستول ) ہیں اور وہ  یہ کہہ رہے تھے کہ اگر طلاق نہ مانگی تو ہم تم  کو قتل کردیں گے۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ تم کیا چاہتی  ہو تو اس نے کہا کہ مجھے مرنا قبول ہے مگر طلاق نہیں ، اتنا کہہ کر وہ غم سے بیہوش ہو گئی اور میرے رشتہ دار اسے اٹھا کر لے گئے ، اور فوراً میرے پاس ایک لکھی ہوئی تحریر لے آئے کہ اس پر سائن کرو، میں نے تحریر کا پہلا صفحہ پڑھا وہ جھوٹ پر مبنی تھا۔ میں نے اس پر اپنے غلط دستخط  کئے جس کا مقصد صرف اپنی زندگیوں کو محفوظ کرنا تھا۔ کیونکہ یہاں سب میرے رشتہ دار تھے جو میرے  اوپر تشدد کر ر ہے تھے۔ تو اس لڑکی کے ساتھ کیا سلوک کرتے دوبارہ پھر میرے پاس تحریر لے کر آئے سائن غلط ہیں۔ میں نے پھر غلط سائن کئے، پھر میرے رشتہ داروں نے زبردستی میرا انگوٹھا لگوایا اور مطمئن ہو گئے کہ میں نے میری بیوی کو چھوڑدیا ہے مگر میں نے اپنے دل میں اللہ سے عہد کیا تھا کہ یا اللہ تو گواہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو نہیں چھوڑا اس کے باوجود میرے گھر والے  مجھے باہر نہیں نکلنے دے رہے تھے۔  میں نے پھر اپنے گھر والوں کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے والدصاحب کو کہا کہ میں اگر رہوں گا تو اپنی بیوی کے ساتھ  اور اس کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں رہوں گا۔ تو والد صاحب نے کہا تم اس کو چھوڑ چکے ہو اس کے لیے حلالہ کروانا پڑے گا۔ میں نےکہا کہ جو بھی ہو اس کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے اور کسی کے ساتھ نہیں۔میری باتوں سے والد صاحب کافی حد تک مطمئن ہو گئے اور مجھے باہر نکلنے کی تھوڑی بہت اجازت مل گئی۔ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر  میں گھر سے بھاگ گیا، اور کسی دوست کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں سے میں نے لڑکی کے بھائی کو فون کیا  اور اس کو بتایا کہ میں نے لڑکی کو نہیں چھوڑا، یہ میری امانت ہے۔ اس نے کہاکہ ہمارے پاس تو طلاق کے پیپر ز ہیں۔ میں نے اس کو  کہا کہ  وہ سب جھوٹے کاغذ ہیں۔ یہ بات میرے گھر تک بھی پہنچی، میں  تقریباً دس دن بعد گھر اپنے کپڑے اور اسناد وغیرہ لینے کے لیے گیا تو میرے گھر والوں نے کہا کہ میں نے فون کیوں کیا ؟تو میں نے صاف کہہ دیا کہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے میری زندگی کے مطابق جینے دو اور گھر سے آگیا پھر میں نے لڑکی  سے رابطہ کیا  اور واقعے کے ایک ماہ  کے بعد ہم لوگ پھر ایک ہوگئے او رسب سے دور اپنی دنیا بسالی۔ اب تین سال گذرنے کے بعد جب کہ ہمارے دو بچے ہیں اور لڑکی کے فیملی والے بھی اس سے ملتےہیں اور میرے رشتہ دار بھی ملتےہیں تو کچھ شر پسند لوگوں نے اس کاغذا کے ٹکڑے کی کاپیاں کروا کر ہمارے سارے ملنے والو میں بانٹنا شروع کردی ہیں کہ ہم  لوگ (نعوذ باللہ ) حرام زندگی گذار رہے ہیں اور ہمارے بچے بھی حرام ہیں۔

اوپر لکھے  گئے احوال میں ہر بات حرف بہ حرف سچ ہے اس کی روشنی میں مفتی صاحبان ان سوالوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؛

1۔ کیا ایسی صورت میں طلاق  ہوجاتی ہے کہ جب  بندہ نہ تو طلاق دینے کے لیے راضی ہو  اور نہ ہی تحریر لکھی ہو اور نہ ہی طلاق کا لفظ پڑھا ہو اور نہ ہی زبان سے اقرار کیا ہو اور تحریر بھی جھوٹی ہو؟

2۔ اگر قرآن و حدیث کے مطابق طلاق ہو جاتی ہے  تو لا علمی میں کئے گئے اس عمل کے بارے میں قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں؟ اس کا مثبت حل کیا ہے؟

3۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو کسی پر طلاق دینے کے لیے تشدد کرتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ صورت حال کے مطابق طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ  یہ صرف تحریری طلاق ہے  اور مجبوری اور زبردستی کی صورت میں تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فلو أكره أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجه و لا حاجة  ههنا. ( شامی، کتاب الطلاق )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved