- فتوی نمبر: 12-309
- تاریخ: 09 اگست 2018
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
کیاکہتے ہیں مفتیان بیچ اس مسئلے میں کہ ہمارے والد صاحب ضعیف ہیں اور اللہ نے ہمیں ان کی خدمت کی سعادت عطاء فرمائی ہے ۔ایک دو مرتبہ وہ اکیلے نماز پڑھتے ہوئے گرپڑے جس سے ان کے ذہن میں ڈر بیٹھ گیا ہے ۔ان کی منشاء ہوتی ہے کہ مجھے استنجاء وضو کروا کر میرے ساتھ گھر میں ہی جماعت کروائی جائے ۔پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم ان کے ساتھ گھر میں جماعت کروائیں اول وقت میں پھر مسجد جاکر بھی فرض نماز اد ا کرلیں جماعت کے ساتھ اور اس میں قضائے عمری کی نیت کرلیں تو یہ ٹھیک ہو گایا نہیں؟شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں ۔کیونکہ مسجد میں جاناہمارے لیے ضروری ہے اور وہاں پر تبلیغی اعمال میں شرکت وغیرہ بھی کرنی ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ والد صاحب کی خدمت میں سہ روزہ وغیرہ میں بھی کوتاہی ہو رہی ہے اور دوسرے تبلیغی اعمال میں بھی کوتاہی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے طبیعت پر بہت اثر رہتا ہے ۔راہنمائی فرمائیں۔شکریہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ والد کے ساتھ گھر میں جماعت کرواسکتے ہیں نیز گھر میں جماعت کروانے کی صورت میں یہ خیا ل رہے کہ جتنے افراد کے رکنے کی واقعی ضرورت ہے اتنے رکیں اور باقی مسجد میں جاکر نماز پڑھیں ۔گھر میں جماعت کروا کر مسجد کی جماعت میں قضائے عمری کی نیت کرنا صحیح نہیں البتہ نفل کی نیت کر سکتے ہیں اور وہ بھی صرف ظہر اور عشاء میں۔
وفي الشامية(349/2)
وقيامه بمريض ۔۔قوله اي يحصل له بغيبه المشقة والوحشة کذا في الامداد (349/2)
وايضا فيه (338/2)
قوله :وتحاد مکا نها وصلاتها ۔۔۔وعبر في نور الايضاح بقوله :وان لايکون مصليا فرضا غيرفرضه۔
وايضافيه(391/2)
ولا مفترض بمتنفل ومفترض فرضا آخر قوله (وبمفترض فرضا آخر)سواء تغاير الفرضان اسما او صفة کمصلي ظهر امس بمصلي ظهر اليوم
© Copyright 2024, All Rights Reserved