• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔ اور اس کاروبار پر واجب زکوۃ کی رقم ہمیشہ مستحق لوگوں کو تقسیم کی جاتی تھی اور اس وقت ** ہی ایک محتاط اندازے سے زکوۃ ادا کرتی تھی لیکن اب دکان کا پورا سسٹم کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے تمام آئٹمز کی تفصیلات بنا لی ہیں، اس طور پر کہ ان ڈاکومنٹ سے موجودہ اشیاء، Replacement والی آئٹمز اور کمپنی کو واپس ہونے والی آئٹمز کی پوری تفصیل واضح ہوتی ہے اور نئے منگوائے جانے والے آرڈرز کی تفصیلات بھی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے اب تمام اشیاء کی واقعی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی قیمت فروخت پر زکوۃ ادا کی جاتی ہے۔

-1            دکان میں موجود سامان

-2            قابل وصول رقم

-3            بینک میں موجود رقم

زکوۃ عموماً رمضان میں فائنل ہوتی ہے البتہ سال کے دوران مختلف موقعوں پر مختلف لوگوں کو زکوۃ ادا کی جاتی  ہے۔

مندرجہ ذیل افراد کو زکوۃ دی جاتی ہے:

فیملی کے وہ افراد جو زکوۃ کے مستحق ہوتے ہیں بشرطیکہ زکوۃ دینے والے کے ذی رحم محرم رشتہ دار نہ ہوں، اسی طرح ملازمین، معذور اور نادار افراد کو زکوۃ ادا کی جاتی ہے اور اگر کوئی رشتہ داروں میں محتاج ہو جنہیں زکوۃ نہیں لگتی یا سید ہو تو زکوۃ کے علاوہ صدقات کی مد سے ان کی امداد کی جاتی ہے۔

-1            مندرجہ بالا افراد کو زکوۃ دینا کیسا ہے ؟

-2            کیا مندرجہ بالا اثاثوں پر زکوۃ لازم ہے؟

-3            احتیاط اور اندازے سے زکوۃ ادا کرنا کیسا ہے ؟

-4            مذکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق زکوۃ ادا کرنا کیسا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

-1            مندرجہ بالا افراد اگر مستحق زکوۃ ہوں یعنی قرضے اور بنیادی ضروریات زندگی کو منہا کر کے ان کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر کوئی چیز نہ ہو تو ان کو زکوۃ دینا درست ہے تاہم اس بات کا خیال رہے کہ ملازمین کو دی جانے والی زکوۃ ان کی تنخواہ میں شمار نہ کی جائے۔

-2            دکان میں موجود سامان سے مراد اگر وہ سامان ہے جو فروخت کرنے کے لیے خریدا گیا ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہے اور اگر وہ سامان برائے فروخت نہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں۔ قابل وصول رقم کے ملنے کی امید ہو تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے ورنہ واجب نہیں۔ بینک میں موجود رقم پر زکوۃ واجب ہے۔ مذکورہ بالا اثاثوں کے علاوہ اگر سونا، چاندی بھی ہو تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے۔

-3            قابل زکوۃ اثاثہ جات کی قیمت کا محتاط اندازہ لگا کر زکوۃ دینا جائز ہے تاہم جب بسہولت حساب کتاب ممکن ہو تو حساب کر کے زکوۃ ادا کرنی چاہئے۔

-4            مذکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق زکوۃ ادا کرنا درست ہے۔ تاہم رشتہ داروں میں صرف اصول (والدین، والدین کے والدین) اور فروع (اولاد، اولاد کی اولاد) اور میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے اس کے علاوہ تمام رشتہ داروں کو زکوۃ دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ مستحق ہوں۔

(۱)            البحرالرائق: (۲/۳۱۹) میں ہے:

وأشار إلي أن الدفع إلي کل قريب ليس بأصل ولا فرع جائز، و هو مقيد بما في ’’الولوالجية‘‘: رجل يعول أخته، أو أخاه، أو عمه، فأراد أن يعطيه الزکوة فإن لم يفرض القاضي عليه النفقة جاز لأن التمليک بصفة القربة يتحقق من کل وجه وإن فرض عليه النفقة لزمانته إن لم يحتسب من نفقتهم جاز، وإن کان يحتسب لايجوز لأن هذا أداء الواجب عن واجب آخر۔

(۲)           البحرالرائق: (۲/۳۲۵) میں ہے:

وشرط فراغه عن الحاجة الاصلية لأن المال المشغول بها کالمعدوم، و فسرها في شرح الجمع لابن الملک بمايدفع  الهلاک عن الانسان تحقيقاً أوتقديراً، فالثاني کالدين والأول کالنفقة، ودور السکني، و آلات الحرب، والثياب المحتاج إليها لدفع الحرأو البرد، وکآلات الحرفة، و أثاث المنزل، ودواب الرکوب، و کتب العلم لأهلها، فإذا کان له دراهم مستحقة لصرفها إلي تلک الحوائج صارت کالمعدومة۔

(۳)            الھندیۃ: (۱/۱۷۴، الباب الاول فی تفسیر الزکوۃ) طبع دار صادر،میں ہے:

(ومنها کون النصاب نامياً) حقيقة بالتوالد و التناسل والتجارة او تقديرا بأن يتمکن من الاستمناء بکون المال في يده او في يد نائبه۔

(۴)           بدائع الصنائع: (۲/۹۱) فصل فی الشرائط التی ترجع الی المال میں ہے:

و منها: کون المال ناميا لان معني الزکاة و هو النماء لايحصل الامن المال النامي۔

(۵)           الدر المختار: (۳/۲۲۱) طبع: دار المعرفۃ، میں ہے:

(و شرطه)أي: شرط افتراض أدائها(حولان الحول)وهو في ملکه(و ثمنية المال کالدراهم والد نانير) لتعينهما للتجارة باصل الخلقة فتلزم الزکاة کيفما أمسکهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض،اما صريحاً ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة کما سيجيء،۔

(۶)           الہندیہ: (۱/۱۷۵) دار صادر میں ہے:

 و منها حولان الحول علي المال، العبرة في الزکاة للحول القمري کذا في القنية۔

(۷) بدائع الصنائع : (۲/۱۰) طبع: دار الکتب العلمیۃ، میں ہے:

 فيجوز تعجيل الزکاة عند عامة العلماء فقط۔

(۸)           الہندیۃ (۱/۱۸۷) میں ہے:

(الباب السابع في المصارف) (منها الفقير) و هو من له أدني شئ و هو مادون النصاب او قدر نصاب غير نام و هو مستغرق في الحاجة فلايخرجه من الفقر ملک نصاب کثير غير نامية اذا کانت مستغرقة بالحاجة… (و منها المسکين و هو من لاشئ له۔

(۹)           الدر المختار (۳/۳۳۳) میں ہے:

"مصرف الزکوة والعشر،…( هو فقير،وهو من له ادني شئي) أي دون نصاب ،او قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسکين من لا شيء له) علي المذهب۔……

(۱۰) الہندیۃ: (۱/۱۹۰) میں ہے:

ولونوي الزکوة بما يدفع المعلم الي الخليفة و لم يستأجر ان کان الخليفة بحال لولم يدفعه يعلم الصبيان أريضا أجزأه وإلافلا… الخ

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved