• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ وصو کرنے والے ہسپتال معطیین کے وکیل ہیں یا فقراء کے؟

استفتاء

محترم مفتی صاحب!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فی زمانہ مختلف وں   کو کثیر زکوۃ دی جارہی ہے بعض ہسپتال والے چاہتے ہیں   کہ زکوۃ کا نظام شریعت کے موافق ہو جائے اس کے لیے مختلف نظام تجویز کئے گئے ہیں  ۔اس سلسلے میں   ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ معطیین کی وکیل ہے یا ان کو فقراء کا وکیل بھی بنایا جاسکتا ہے ۔اگر ان ہسپتالوں   کی انتظامیہ کو معطیین کا وکیل قرار دیا جائے تو ایک اور مسئلہ پیش آتا ہے کہ جب تک ہسپتال انتظامیہ اس زکوۃ کومصرف میں   خرچ نہیں   کرے گی تو معطی کی زکوۃ ادا نہیں   سمجھی جائے گی ۔مزید برآں   اس دوران معطی کی وفات ہو گئی تو یہ رقم وارثوں   کا حق بن جائے گی اور انہیں   واپس لوٹانی ہوگی یا ان کی اجازت سے خرچ کرنی ہو گی اور اجازت میں   ورثاء کے عاقل بالغ ہونے کا بھی لحاظ رکھنا پڑے گاجو کہ ہسپتال کی انتظامیہ کے لیے ایک مشکل کام ہے؟۔آپ سے راہنمائی کی درخواست ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   ایک رائے یہ ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ صرف معطیین(زکوٰۃ دینے والوں  ) کی وکیل ہے اور اس کا تقاضہ یہ ہے کہ زکوۃ کی رقم جب تک شرعی طریقے کے مطابق اپنے مصرف میں   خرچ نہ ہو جائے اس وقت تک زکوۃ ادا نہ سمجھی جائے اور معطی کی وفات کی صورت میں   یہ رقم معطی کے ورثاء کو لوٹائی جائے یا ان کی اجازت سے خرچ کی جائے بشرطیکہ ورثاء سب عاقل بالغ ہوں   یا صرف عاقل بالغ ورثاء اپنے حصے سے اس کی اجازت دیں  ۔

البتہ چونکہ فوت ہونے والے شخص نے زکوۃ کی رقم اپنے پاس سے نکال کرانتظامیہ کو دیدی تھی اگر چہ انتظامیہ معطی کے فوت ہونے سے پہلے اس رقم کو مصرف میں   استعمال نہ کرپائی تھی لیکن اس میں   فوت ہونے والے کی کوتاہی نہ تھی اس لیے خاص فوت ہونے والے شخص کے حق میں   عمومی ضابطے سے ہٹ کر استحسانا زکو ۃ کی ادائیگی مکمل سمجھ کر زکوۃ کے مصرف میں   خرچ کردی جائے گی اور ورثاء کو یہ رقم نہ تو واپس کی جائے گی اور نہ ان سے اجازت کی ضرورت ہو گی ۔

دوسری رائے یہ ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ مثل ناظم بیت المال یا عامل زکوۃ کے مستحق زکوۃ مریضوں   کی وکیل ہے جیسا کہ مہتمم مدرسہ مثل ناظم بیت المال یا عامل زکوۃ کے فقراء کا وکیل ہے لہذا انتظامیہ کے قبضہ میں   جاتے ہی زکوۃ کی رقم معطی (زکوۃ دینے والے)کی ملکیت سے نکل کرمستحق زکوۃ مریضوں   کی ملکیت میں   چلی گئی ۔لہذا معطی کے فوت ہو نے کی صورت میں   رقم ورثاء کی طرف لوٹانے کی یا ان سے اجازت لینے کی ضروت نہیں   بلکہ لوٹانا جائز ہی نہیں   البتہ چونکہ مستحق زکوۃ مریض معلوم اور متعین نہیں   ہیں   اس لیے یہ رقم مستحق زکوۃ مریضوں   کویاان کے مقرر کردہ وکیل کو  مالکانہ بنیاد پر دینا ضروری ہے ۔مستحق مریضوں   کو مالکانہ بنیاد پر دیئے بغیر محض ان کی ضروریات پر خرچ کردینا یا ہسپتال کی کسی اور ضرورت میں   خرچ کردینا جائزنہ ہو گا۔

خلاصہ یہ کہ ہسپتال کی انتظامیہ کو معطیین (زکوۃدینے والوں   )کا وکیل کہیں   یا مستحق زکوۃ مریضوں   کا وکیل کہیں   بہرصورت معطی (زکوۃ دینے والے)کی وفات کی صورت میں   زکوۃ کی ادائیگی مکمل سمجھی جائے گی اور یہ رقم ورثاء کو لوٹانے کی یا ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہ ہو گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved