• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوٰۃ کا وکیل بنانا

استفتاء

مفتی صاحب میں کپڑے کا کام کرتا ہوں۔ فی سوٹ مجھے مثلاً 1500 کا پڑتا ہے اور میں 2 دو ہزار روپے کا بیچتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب مجھے زکوۃ کی رقم دیتے ہیں کہ فقراء کو دے دوں تو کیا میں 2000 میں اپنی دکان سے سوٹ خرید کر فقراء کو دے سکتا ہوں جبکہ 500 اس میں میرا نفع ہو؟

2۔اسی طرح کیا میں اپنی زکوۃ کی رقم فی سوٹ دو ہزار روپے کے حساب سے شمار کر سکتا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اگر زکوٰۃ آپ کے والد  کی ہے تو والد کی طرف سے یا کسی اور کی ہے تو جس کی زکوٰۃ ہے اس کی طرف سے مذکورہ صورت اختیار کرنے کی  صراحتاً یا دلالۃً اجازت ہو تو آپ مذکورہ صورت اختیار کرسکتے ہیں ورنہ مذکورہ صورت اختیار کرناجائز نہیں۔

2۔اگر اس سوٹ کا مارکیٹ ریٹ دو ہزار روپے ہے تو دو ہزار کے حساب سے شمار کرسکتے ہیں ورنہ جو مارکیٹ ریٹ ہو اس کے حساب سے شمار کرسکتے  ہیں خواہ وہ دو ہزار سے کم ہو یا زیادہ  ہو۔

شامی (2/286) میں ہے:

وتعتبر ‌القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه فتح

المبسوط للسرخسی (2/203) میں ہے:

قال: ويجزئه أن يعطي من الواجب جنسا آخر من المكيل والموزون أو العروض أو غير ذلك بقيمته

الفقہ الاسلامی وادلتہ (2/251) میں ہے:

يقوم التاجر العروض أو البضائع التجارية في آخر كل عام ‌بحسب ‌سعرها في وقت إخراج الزكاة، لا بحسب سعر شرائها

احسن الفتاویٰ (4/300) میں ہے:

سوال: کیا وکیل زکوٰۃ کی رقم سے کوئی چیز مثلاً کپڑا،  جوتا، غلہ اور پھل وغیرہ خرید کر دے سکتا ہے؟

جواب: یہ مؤکل کے اذن پر موقوف ہے اگر اس کی طرف سے صراحۃً یا دلالۃً اس کا اذن موجود ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved