• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوۃ کے پیسوں سے مدرسین کی تنخواہ دینا

استفتاء

سوال یہ پوچھنا ہے  زکوة کے حوالے سےکہ اگر اپنی ذاتی جگہ (علیحدہ گھر جس میں تمام سہولیات موجود ہیں) پر  خواتین کا غیر رہائشی مدرسہ بنایا گیا ہے جس میں مقامی خواتین کی 2 سے 3 گھنٹے کی درسِ قرآن ترجمہ و تفسیر اور دیگر  2 سالہ کورس کی  کلاس ہوتی ہے ، تو کیا ماہانہ تنخواہ یا دیگر اخراجات جو مدرسہ کے لیے چیزیں یا کتابیں قرآن پاک وغیرہ زکوة میں سے دے سکتے ہیں؟اس مدرسہ میں مکمل تعلیم فی سبیل اللہ دی جاتی ہے کوئی فیس وغیرہ نہیں مقرر کی گئی اور جنہوں نے بنایا صرف ان کی زکوة کے متعلق سوال کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زکوة میں سے خرچ کر سکتے ہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: 1۔تنخواہ اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کیا ذرائع ہیں؟ کیا زکوۃ کے علاوہ رقم تنخواہوں اور اخراجات کے لیے پوری نہیں ہوتی؟2۔اس مدرسہ میں صرف زکوۃ کی ضرورت کیوں ہے ؟ دوستوں اور رشتہ داروں سے یا علاقہ والوں سے چندہ کیوں نہیں لے سکتے ؟

جواب وضاحت:1۔اپنا کاروبار ہے پینٹ سٹور ہے جس میں فقط ماہانہ گزارا ہوتا ہے اسکے علاوہ 6 تولہ سونا ہے ، کاروبار اور سونا کی سالانہ زکوة دینی بنتی  ہے جو کئی بار رہ جاتی ہے ، اگر معلمہ کی صرف تنخواہ کی اجازت ملی تو یہ فریضہ بھی آسان ہو جائے گا۔2۔کیونکہ یہ ذاتی جگہ پر دینی تعلیم فی سبیل اللہ دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اور دوستوں اور رشتہ داروں سے چندہ لینے میں عار محسوس کی جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مدرس  کو زکوۃ کی رقم تنخواہ میں دینا یا مدرسے کے اخراجات میں یا مدرسے کے لیے کتابیں  خریدنے میں جائز نہیں۔اگر ضرورت ہو اور دوسری جگہ سے اس کا بند و بست نہ ہو سکتا ہو تو فی الحال یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں کہ کسی مستحق کو زکوۃ کی رقم دی جائے اور وہ خوشی سے مدرسہ میں دیدےتو اس سے تنخواہ  دینا اور اخراجات وغیرہ پورا کرنا جائز ہے۔لیکن جب زکوۃ کی رقم کے علاوہ دوسری رقم کا ذریعہ اور بندو بست ہو جائے تو مذکورہ طریقہ کو ترک کیا جائے۔

2 ۔زکوۃ کے پیسوں سے کتابیں خرید کرمستحق زکوۃ طلباء  یا  طالبات کو بطور ملکیت دینا جائز ہے۔

مرقاۃ المفاتیح: (باب فضل الصدقۃ، 338/4) میں ہے:

(الصدقة) هي مايخرجه الانسان من ماله، علي وجه القربة واجبا كان او تطوعا

بحر الرائق (2/ 216) میں ہے:

«(قوله هي تمليك المال من فقير مسلم ‌غير ‌هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى -) لقوله تعالى {وآتوا الزكاة} [البقرة: 43] والإيتاء هو التمليك ومراده تمليك جزء من ماله»

بحر الرائق ( 2/224) میں ہے:

 والحيلة في الجواز….. ‌أن ‌يتصدق ‌بمقدار زكاته على فقير ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون لصاحب المال ثواب الزكاة وللفقير ثواب هذه القرب

فتاوی محمودیہ (15/596) میں ہے:

سوال : ایک مدرس میں رمضان شریف میں مدرسہ کی جانب سے چندہ وصول کرنے جاتا ہے جس میں زکوۃ صدقہ فطر  وغیرہ روپے لے کر آتا  ہے تو گھر پر آ جانے کے بعد قبل از تملیک اس پیسے میں سے مدرس کی تنخواہ دی جا سکتی ہے ؟

جواب: زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا  تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved