- فتوی نمبر: 10-74
- تاریخ: 15 جولائی 2017
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
مدرسہ کے لیے جو چندہ جمع ہوتا ہے اس میں زیادہ تر رقم زکوٰۃ کی ہوتی ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ مدرسہ کی تعمیرات، بل بجلی وغیرہ، عملے کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات زکوٰۃ کی مد سے ادا کیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ زکوٰۃ کے علاوہ مدات کی رقوم ان اخراجات کے لیے بالکل ناکافی ہوتی ہیں۔ اگر مذکورہ بالا اخراجات زکوٰۃ کی مد سے ادا کیے جا سکتے ہیں تو ان میں زکوٰۃ کی رقم لگانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
دوسرے لفظوں میں مدرسہ میں زکوٰۃ کی رقوم کن کن مصارف میں استعمال کرنے کی گنجائش ہے؟ اور اس کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ یعنی حیلہ وغیرہ کا درست اور بے غبار طریقہ کیا ہے؟
یہ پوچھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ حیلہ اختیار کرنا زکوٰۃ کے مستحقین کو ان کے حق سے محروم کرنا ہے۔ اور جائز نہیں ہے۔ جبکہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ تبلیغ اور اشاعت و حفاظت دین اہم فریضہ اور شریعت میں مطلوب ہے۔ مجبوری میں اس کے لیے حیلے اختیار کرنے کی گنجائش ہے، ورنہ تعلیم دین کا حرج ہو گا۔
اس سلسلے میں رہنمائی فرما دیں۔ نوازش ہو گی، جزاک اللہ احسن الجزاء
مزید صورت حال یہ ہے کہ مسجد قدیم ہے، مدرسہ بعد میں شروع ہوا۔ وہ جگہ بھی بعد میں مدرسہ کے لیے ملی لیکن اس جگہ پر بنات کا شعبہ قائم کر کے اس کا انتظام الگ کر دیا گیا، اس کا مہتمم بھی الگ انتظامیہ بھی۔ اب اسی بنات والی عمارت سے ایک کمرہ پھر مسجد و مدرسہ بنین کے لیے لیا جا رہا ہے۔
ایک بات رہ گئی وہ یہ کہ گذشتہ سال مسجد کی تعمیر جدید کے لیے مدرسہ عارضی طور پر بند کرنا پڑا، کیونکہ جگہ اور نہیں تھی۔ تو اس لیے فی الحال کوئی طالب علم نہیں ہے۔ لہذا فارم میں توکیل والا طریقہ تو نہیں ہو سکتا۔ اب کیسے تملیک کریں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زکوٰۃ یا صدقات واجبہ کی رقم کو براہ راست مدرسہ کی تعمیرات، بجلی وغیرہ کے بلوں کے ادائیگی اور عملے کی تنخواہوں میں صرف کرنا جائز نہیں۔ بلکہ کسی مستحق زکوٰۃ کو بغیر کسی عوض کے مالکانہ بنیاد پر دینا ضروری ہے۔
اگر زکوٰۃ کے علاوہ مدات کی رقوم ان اخراجات کے لیے ناکافی ہوں اور زکوٰۃ یا صدقات واجبہ کی رقوم کو ان اخراجات میں استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو اس کے بے غبار طریقے پر عمل کرنے کے لیے یا تو مسائل بہشتی زیور کے متعلقہ حصہ(1/377) کو دیکھ کر عمل کریں یا دار الافتاء میں تشریف لا کر براہ راست اس طریقے کو سمجھ لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved