• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کی رقم سے میت کا قرض ادا کرنا

استفتاء

مفتی صاحب اگر کوئی آدمی وفات پا جائے اور اس کے اوپر قرض ہو لیکن اس کے بچے ابھی چھوٹے ہیں جو اپنے باپ کا قرض نہیں اتار سکتے، مکان بھی کرایہ کا ہے، تو کیا زکوۃ کے پیسوں سے اس کا قرضہ اتار سکتے ہیں اور کیا مرحوم کے بہن/بھائی یا کوئی بھی زکوٰۃ کے پیسے اس قرضے میں شامل کر سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زکوۃ کے پیسوں سے  براہ راست تو میت کا قرض ادا نہیں کرسکتے ہاں اگران کے بچے سمجھ دار ہیں اور صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو ان کو زکوۃ دی جاسکتی ہے  پھر وہ خود اس رقم سےاپنے والد کا قرض ادا کریں کیونکہ زکوۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے جبکہ میت مالک بننے کی اہل نہیں ہے  نیز میت کے بھائی /بہن بھی ان کو زکوۃ دے سکتے ہیں ۔

فتاویٰ قاضی خان (1/164) میں ہے:ولو قبض الصبي وهو مراهق جاز،وكذا لو كان يعقل القبض بأن كان لا يرمي به.

فتاویٰ تاتارخانیہ (3/221) میں ہے:سئل عبد الكريم عمن دفع زكوة ماله الي صبي؟قال: إن كان مراهقا يعقل الأخذ يجوز وإلا لا.

حاشيہ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 474)ميں ہے:قوله ( وكفن ميت وقضاء دينه وثمن قن يعتق ) قال في الدر نقلا عن حيل الأشباه وحيلة التكفين بها التصدق على فقير ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما وكذا في تعمير المساجد.

حاشيہ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 473)میں ہے:ومن سوى ما ذكر يجوز الدفع إليهم كالأخوة والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات الفقراء بل هم أولى لما فيه من الصلة مع الصدقة ثم بعدهم الأقارب ثم الجيران بحر.

رد المحتار (3/ 308)میں ہے:دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز.(قوله:إلى صبيان أقاربه)أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير.

امدادالفتایٰ جدیدمطول(3/526)میں ہے:

سوال: اپنے حقیقی یا علاتی یا اخیافی یا رضاعی بھائی بہن یا بھانجے یابھانجی یا بھتیجے یا بھتیجی یا ماموں یا خالہ یا پھوپی یا سالہ یا سالی یا ساس کو خواہ بالغ ہوں یا نابالغ زکوٰۃ و فطرہ دینا جائزہے یانہیں ؟

جواب: جائز ہے  اگر وہ نابالغ ہے تو اس میں یہ بھی شرط ہے کہ اس کا باپ غنی نہ ہو، اگرچہ ماں غنی ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved