• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کی رقم سے قیدیوں کاجرمانہ اداکرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب مفتی صاحب  !  ہمارا حال ہی میں  پشاور اور ہری پور سینڑل جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں  پر قیدیوں  سے پوچھ گچھ کی، اور جیل انتظامیہ سے بھی معلومات حاصل کیں ۔ سُن کر کافی حیرانگی ہوئی کہ بعض قیدی ایسے بھی ہیں  جن کی قید کی میعاد پوری ہو چکی ہے مگر وہ ابھی تک قید سلاسل ہیں  ، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان قیدیوں  کے ذمے کچھ جرمانہ رقم ہے مثلاً 2000 یا 3000  ، مگر یہ قیدی اِس جرمانہ رقم کو  بوجہ غربت کے ادا کرنے سے قاصر ہیں ۔

جناب مفتی صاحب ! آپ سے پوچھنا  یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اِن مذکورہ بالا قیدیوں  کی جرمانہ رقم اپنی طرف سے زکوۃٰ کی مد میں  جمع کرا کر انِ قیدیوں  کوقید سلاسل سے نکال دے، تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر جائز نہیں  تو جناب مفتی صاحب ،اِ س کی کیا صورت بنے گی یا اِ س کا کیا طریقہ کار ہے جو کہ شرعاً جائز ہو؟اوران قیدیوں  کی شرعًا مدد کر کے اِن کو آزاد زندگی کی خوشیوں  میں  دوبارہ لا سکیں اور اِن کو اِن کے ماں  باپ، بہن بھائیوں  اور بال بچوں  کے پاس پہنچایا جاسکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زکوۃ کی رقم قیدیوں  کو دیدی جائے وہ اسے اپنے جرمانے میں  ادا کردیں  یا ان کی اجازت سے ان کے جرمانے ادا کردئیے جائیں  اس طرح زکوۃ ادا ہو جائے گی۔

نوٹ:         غیر مسلم زکوۃ کا اہل نہیں لہذا اس کا تعاون اگر کرنا ہوتو زکوۃ کے علاوہ سے کیا جائے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved