• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زمین کے اجارے میں یہ طے کرنا کہ مستاجر جو درخت اس میں  لگائے گا وہ بعد  میں زمین والے کے ہوں گے 

استفتاء

میں صوبہ کے پی کے سے تعلق  رکھتا ہوں بحمد اللہ ایک مدرسہ دینیہ میں درس نظامی کا مدرس ہوں، ایک مسئلہ کے متعلق  عنایت فرمائیں کہ ہمارے ہاں عقد اجارہ کی ایک خاص صورت مروج ہے اور وہ یہ کہ مستاجر اجرت پر زمین حاصل کرتا ہے کہ اس میں باغ کاشت کرے گا اور سالانہ پیسوں یا گندم کو بطور اجرت طے کیا جاتا ہے اور عقد کے وقت ہی باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ کی شکل میں مستاجر اپنے آپ کو اس بات کا پابند کر لیتا ہے کہ اجارہ کی مدت ختم ہونے پر زمین کے ساتھ ساتھ اس کالگایا باغ بھی موجر کے لیے چھوڑے گا، موجر بھی اس باغ کی رغبت میں کہ مدت اجارہ کے اختتام پر باغ مفت میں ملے گا یہ معاہدہ کر لیتاہے۔

1) شرعا اس کا کیا حکم ہے ، اگر ناجائز ہے تو حیلہ جواز بھی تحریر فرمائیں۔

2)  کیا اپنے آپ کو  ’’باغ چھوڑنے کا پابند کرنا حسب منشا موجر کے‘‘  آیا یہ وعدہ کے زمرہ میں آتا ہے یا شرط کے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:  کیا مذکورہ صورت کا آپ کے علاقہ میں باقاعدہ عرف ہے یا چند لوگ اپنے طور پر ایسا معاملہ کر لیتے ہیں۔معاہدہ کی  تصویربھی بھیج دیں۔

جواب وضاحت: باقاعدہ عرف ہے یعنی عرف عام ہے۔

اقرار نامہ

اقرار نامہ پٹہ اراضی زرعی                                                       یک قطعہ اسٹامپ مالیتی مبلغ 11200 روپے

اجارہ کار/ مالک اراضی 1.** ساکن محلہ  یعقوب **** ضلع مردان اجارہ دار/پٹہ دار 1. ** ساکن چقزو بانڈہ کئہ خٹ، تحصیل و ضلع مردان،

سالانہ پریمئیم(پٹہ کی رقم) 1۔ پہلے پانچ سال یکم نومبر2020ء سے 30اکتوبر 2025ء تک سالانہ پٹہ  کی رقم ستر من گندم 4سے پانچ سال یکم نومبر2025ء سے 30اکتوبر 2030ء تک سالانہ اجارہ پٹہ 90من گندم یکم نومبر2030ء سے 30اکتوبر 2035ء تک سالانہ اجارہ/پٹہ ایک سو دس(110) من مقرر کرلیا۔

اشٹام معاہدہ 30اکتوبر 2035ء ہوگی، معاہدہ، پٹہ اراضی زرعی اگلے سولہ (16)سال کے لیے ہے، فریقین کی باہمی رضامندی سے  مدت بڑھائی جاسکتی ہے۔

من مسمی وسیم خان ولد مہر دل بقائمی ہو ش و حواس برضا مندی خود بخوشی خود بلانشہ بلا جبر و اکراہ وغیرہ  سے اقرار کرکے لکھ دیتا ہوں کہ میں نے اپنی مملوکہ و مقبوضہ زرعی اراضی جس کو میں پٹہ/اجارہ پر دینے کا مجاز ہوں، میں نے مذکورہ اراضی ، رقبہ بقدر تقریباً دس جریب سے بارہ جریب تک ہے۔ مذکورہ اراضی دراند زرین آباد موضع بازار میں واقع ہے۔ مذکورہ اراضی کو میں نے متذکرہ بالا سالانہ پریمئیم پر دے دیا ہے، سالانہ پریمئیم اجارہ دار آمین خان باقاعدگی سے ادا کرنے کے پابند  رہیں گے۔  اجارہ دار آمین خان ٹیوب ویل اور مکان وغیرہ کی حفاظت کرنے کے پابند رہیں گے، ٹیوب ویل اور گھر جس حالت میں من مقر  اجارہ دار کے حوالہ کر دیں، اُسی حالت میں واپس کرنے کے پابند رہیں گے۔ اجارہ دار مذکورہ اراضی میں مالٹوں اور میوہ دار درختوں کو لگا کر اختتام معاہدہ پر اجارہ کار کو چھوڑنے کے پابند رہیں گے۔ البتہ غیر پھلدار درخت اجارہ دار آمین خان فروخت کرنے اور کاٹنے کے مجاز رہیں گے، مذکورہ اراضی  وسیم خان ولد مہر دل کی ملکیت ہے، اجارہ دار مذکورہ زرعی اراضی اختتام معاہدہ پر مالک کے حوالہ کرنے کے پابند ہونگے، اور نامہ پٹہ اراضی زرعی روبروگواہان ذیل تحریر کر دیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام کردے۔ المرقوم2020-11-24

اجارہ کار/مالک اراضی                                         اجارہ دار/پٹہ دار

وضاحت مطلوب ہے کہ: کیا آپ کے علاقے میں اس شرط کا اس درجے میں بھی عرف ہے کہ اگرچہ عقد کے وقت کوئی اسے ذکر نہ بھی کرے تو وہ پھر بھی ملحوظ ہوتی ہے یا صرف اسی صورت میں وہ شرط معتبر سمجھی جاتی ہے جب عاقد بھی باقاعدہ  اسے ذکر کریں اگرچہ اس طرح ذکر کرکے معاملہ کرنے کا عام رواج ہی ہو۔

جواب وضاحت: جب زمین کو باغ کے لیے کرائے پر دینے کے عنوان سے معاملہ کیا جارہا ہو تب یہ ساری باتیں خودبخود ملحوظ ہوتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں اگر واقعی آپ کے علاقے میں اس بات کا عرف ہے کہ جب کوئی شخص باغ لگانے کے لیے زمین ٹھیکے پر لیتا ہے تو معاہدہ کے اختتام پر اس زمین پر موجود درخت زمین والے کو ملتے ہیں اور یہ عرف بھی اس درجے کا ہے کہ اگر فریقین اس بات   کو معاہدے میں صراحتاً ذکر نہ کریں  تو تب بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ درخت زمین والے کے ہونگے تو مذکورہ صورت جائز ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اس طے کرنے کی حیثیت  کہ  اجارہ کے ختم ہونے پر باغ والا درخت  زمین والے کو دے دے (ہبہ کردے گا)گا اس کی حیثیت عقد میں شرط زائد  کی ہوگی جس میں اگرچہ متعاقدین میں سے ایک کا نفع بھی ہے  لیکن اس شرط کا چونکہ اس علاقے میں  عرف ہے اس لیے یہ  شرط مفسد عقد نہ ہوگی نیز  عقد کے وقت ان  درختوں کی تعداد میں اگرچہ جہالت ہے لیکن عام عرف ہونے کی وجہ سے چونکہ یہ جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہے اس لیے یہ  جہالت بھی مفسد عقد نہ بنے گی۔۔

2)  چونکہ عقد کے وقت تحریری طور پر یہ طے ہوجاتا  ہے  جس کی بنا پر قانونی طور پر باغ والا اس کا پابند بھی ہوتا ہے اس لیے  یہ محض وعدہ شمار نہ ہوگا۔

نوٹ: یہ جواب سائل کی اس وضاحت کے مطابق ہے کہ اس بات کا ان کے علاقہ میں عرف عام ہے چنانچہ اگر حقیقت اس کے خلاف ہو تو یہ جواب کالعدم شمار ہوگا۔

الدر المختار مع الشامي (6/ 46)  میں ہے:تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكلما أفسد البيع ) مما مر ( يفسدها ) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة ردقوله ( وكشرط طعام عبد وعلف دابة ) في الظهيرية استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المتسأجر ذكر في الكتاب أنه لا يجوز وقال الفقيه أبو الليث في الدابة نأخذ بقول المتقدمين أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اه قال الحموي أي فيصح اشتراطه واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اه أقول المعروف كالمشروط[1] وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز  تأملوالحيلة أن يزيد في الأجرة قدر العلف ثم يوكله ربها بصرفه إليها ولو خاف أن لا يصدقه فيه فالحيلة أن يعجله إلى المالك ثم يدفعه إليه المالك ويأمره بالإنفاق فيصير أمينا بزازية ملخصا قوله ( ومرمة الدار أو مغارمها ) قال في البحر وفي الخلاصة معزيا إلى الأصل لو استأجر دارا على أن يعمرها ويعطي نوائبها تفسد لأنه شرط مخالف لمقتضى العقد اه فعلم بهذا أن ما يقع في زماننا من إجارة أرض الوقف بأجرة معلومة على أن المغارم وكلفة الكاشف على المستأجر أو على أن الجرف على المستأجر فاسد كما لا يخفى اه  أقول وهو الواقع في زماننا ولكن تارة يكتب في الحجة بصريح الشرط فيقول الكاتب على أن ما ينوب المأجور من النوائب ونحوها كالدك وكري الأنهار على المستأجر وتارة يقول وتوافقا على أن ما ينوب إلخ والظاهر أن الكل مفسد لأنه معروف بينهم وإن لم يذكر والمعروف كالمشروط شرح المجلہ (540/2) میں ہے:وكذا تفسد الاجارة لو استاجر بشرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع للعاقدين فلو آجر الارض بشرط ان يردها بعد فراغة الاجارة مكروبة اي مفلوحة تفسدالمجلہ (مادة 188) وشرح المجلہ (64/2) میں ہے:البيع بشرط متعارف يعني الشرط المرعى في عرف البلدة صحيح والشرط معتبر مثلا لو باع الفروة على أن يخيط بها الظهارة أو القفل على أن يسمره في الباب أو الثوب على أن يرقعه يصح البيع ويلزم البائع الوفاء بهذه الشروطوقال الاتاسي: اي وان كان لايقتضيه العقد ولا يلائمه وافادت هذه المجلة انه يعتبر العرف الخاص الحادث قال في رد المحتار ومقتضي هذا انه لو حدث عرف في شرط غير الشرط في النعل والثوب والقبقاب ان يكون معتبرا اذا لم يؤد الي المنازعة وانظر ما حررناه في رسالتنا المسماة نشر العرف في بناء بعض الاحكام علي العرف وحاصل ما حققه في تلك الرسالة ان العرف الخاص معتبر وان خالف المنصوص عليه في كتب المذهب ما لم يخالف النص الشرعي يعني الكتاب والسنة والاجماع وان العرف الخاص يشمل القديم والحادث وان حكم العرف يثبت علي اهله خاصا اع عاما فالعرف العام[1]  قال الرافعی تحته: (قوله المعروف كالمشروط الخ) اي فيفسد العقد وان لم يصرح بهذا الشرط لانه بمنزلة المنصوص عليه وهو لايقتضيه  العقد خصوصا مع جهالة مقدار ما ياكله العبد وجنسه لكن هذا حينئذ مخالف لكلام الفقيه بالكلية فان مقتضاه  جواز الاجارة في العبد لا الدابة ولعل وجه الجواز فيه مع الجهالة في علفه انها لاتفضي الي المنازعة بسبب انه ياكل من مال المستاجر عادة كما يشير اليه قوله :اما في زماننا الخ فتكون مثل استيجار الظئر بطعامها[1]  قال الرافعی تحته: (قوله المعروف كالمشروط الخ) اي فيفسد العقد وان لم يصرح بهذا الشرط لانه بمنزلة المنصوص عليه وهو لايقتضيه  العقد خصوصا مع جهالة مقدار ما ياكله العبد وجنسه لكن هذا حينئذ مخالف لكلام الفقيه بالكلية فان مقتضاه  جواز الاجارة في العبد لا الدابة ولعل وجه الجواز فيه مع الجهالة في علفه انها لاتفضي الي المنازعة بسبب انه ياكل من مال المستاجر عادة كما يشير اليه قوله :اما في زماننا الخ فتكون مثل استيجار الظئر بطعامهافي سائر البلاد يثبت حكمه علي اهل سائر البلاد والعرف الخاص في بلدة واحدة يثبت حكمه علي اهل تلك البلدة وانه انما يعتبر العرف سواء كان خاصا او عاما اذا كان شائعا بين اهله مستفيضا لديهم يعرفه جميعهم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمثيل المجلة بهذه الامثلة يدل علي ما تقدم من اعتبار العرف الخاص الحادث لان كون هذه الشروط من الشروط التي جري العرف بها لم يذكر في كتب الفقهاء فدل علي ان التعارف بها حادث ولان التعارف بها ليس بعام في جميع البلاد فان بيع الفروة علي ان يخيط بها الظهارة او القفل علي ان يسمره في الباب لم يتعارف عندنا اصلا فدل انه خاص في بعض البلاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved