• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زمین کرائے پر لینے والے پر عشر واجب ہوگا یا نہیں؟

استفتاء

1۔ ایک بندے نے اپنی زمین پیسوں کے بدلے میں کسی کو کرایہ پر دی، اجرت پرلینے والے نے اس زمین میں فصل کاشت کی، اس دوران زمین کے مالک کا انتقال ہو گیا اب سال پورا ہونے کے بعد زمین کے مالک کے ذمے اس فصل کا عشر  ہے یا نہیں؟

2۔ کیا مالک  زمین درمیان سال میں فوت ہو جائے تو مسئلہ پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ہمارے علاقوں میں کرایہ پر دی ہوئی زمین کی پیداوار کا عشر مالک زمین کے ذمے نہیں بلکہ زمین کرایہ پر لینے والے کے ذمے ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں پیداوار کا عشر مالک زمین پر نہ ہوگا بلکہ زمین کرایہ پر لینے والے کے ذمے ہوگا۔

2۔ مذکورہ صورت میں مالک زمین کے درمیان ِ سال فوت ہونے سے کچھ اثر نہ پڑے گا  کیونکہ اگر مالکِ زمین درمیان میں فوت ہو جاتا ہے تو اجرت پر زمین لینے والے کو  فصل کاٹنے تک کی مہلت دی جائے گی اور فصل کا مالک کرایہ پر لینے والا ہی ہوگا۔

1۔شامی  (2/ 334) میں ہے:

«والعشر ‌على ‌المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ

  قوله (وبقولهما نأخذ) قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم»

العقود الدریۃ فی تنقیح  الفتاوى الحامدیۃ (1/ 10) میں ہے:

‌والعشر ‌على ‌المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم وفي الحاوي وبقولهما نأخذ وقد كتبت في رد المحتار ما نصه قلت لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتي بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم.

امداد المفتین (5/483) میں ہے:

سوال: ٹھیکیدار عشر دے گا جو زمین کو ٹھیکے پر لے کر کاشت کرتا ہے؟

جواب :زمین نقد روپیہ سے ٹھیکے پر لی جائے تو اس سب کا عشر ٹھیکیدار پر عائد  ہوتا ہے۔

2۔ النہایہ شرح الہدایہ (11/498) ميں  ہے:

واما اذا مات احد المتعاقدين بطلت المزارعة هذا الذي ذكره جواب القياس واما في جواب الاستحسان فيبقى عقد المزارعة الى ان يستحصد الزرع هكذا ذكر في المبسوط.   والقياس أن تنقض المزارعة ولورثة رب الارض ان ياخذوا اراضيهم وفي الاستحسان يبقى العقد الى ان يستحصد الزرع ثم قال ومعنى قوله يبقى العقد:  يبقى عقد المزارعة ولا يثبت اجارة مبتداة حتى لا يجب الاجر على المزارع وانما بقينا عقد المزارعة نظرا الى المزارع لانه لو لم يبق فورثة رب الارض يقلعون الزرع فيتضرر به المزارع بابطال حقه في الزرع وهو غير متعد في هذه المزارعة

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved