- فتوی نمبر: 7-358
- تاریخ: 15 ستمبر 2015
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
غلہ منڈی میں زمیندار اپنا غلہ جس آڑھتی کے پاس لاتا ہے وہ آڑھتی مال کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ بولی میں مال کا جو ریٹ لگا، زمیندار کو وہ قبول نہیں ہے۔ اب وہ چاہے تو اپنا مال اٹھا لے اور اگر چاہے تو بولی لگانے والے آڑھتی کے پاس بطور امانت رکھوا دے۔ اس صورت میں اگر کسی آفت وغیرہ سے مال کو نقصان پہنچے تو آڑھتی ذمہ دار نہیں ہوتا لیکن اگر مال چوری ہو گیا تو آڑھتی ذمہ دار ہے اور وہ زمیندار کو مال پورا کر کے دے گا۔
اگر یہ زمیندار اس آڑھتی کے پاس ہی اپنا مال لاتا ہے تو آڑھتی اس کا مال امانت کے طور پر رکھنے کا کرایہ وصول نہیں کرتا ورنہ وصول کرتا ہے۔ البتہ منڈی میں کرایہ لینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت کم پیش آتی ہے۔ کرایہ لینے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر ایک گودام میں 1000 بوری آتی ہے اور اس کا کرایہ 5000/- روپے ماہانہ ہے تو زمیندار کی جتنی بوریاں ہوں گی اس پر تقسیم کر کے اس کا کرایہ بنے گا۔
1۔ کیا مذکور صورتحال میں زمیندار کا مال امانت کے طور پر رکھنا درست ہے؟
2۔ کیا کرایہ لینے کا مذکور بالا طریقہ کار درست ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ بالا صورتحال میں زمیندار کا مال بطور امانت رکھنا درست ہے۔ اب اگر آڑھتی اس کا کرایہ وصول نہیں کرتا اور مال کے چوری ہونے میں آڑھتی کی غفلت اور کوتاہی کا دخل نہ ہو تو آڑھتی زمیندار کو مال پورا کر کے دینے کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔لیکن اگر آڑھتی اس کا کرایہ وصول کرتا ہے تو مال چوری ہونے کی صورت میں آڑھتی ذمہ دار ہوگا خواہ اس کی کوتاہی ہو یا نہ ہو۔
2۔ آڑھتی کا سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار کے مطابق زمیندار سے گودام کا کرایہ وصول کرنا جائز ہے۔
(١) السنن الدار قطنی: (رقم الحدیث ١٦٧، کتاب البیوع، ٢/٤١) طبع شاملة:
عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده أن رسول الله ۖ قال: ”لاضمان علی مؤتمن۔”
(٢) درر الحکام: (١/٤٦٨)
یجوز ایجار شیٔ واحد لشخصین وکل منهما لوأعطٰی من الاجرة مقدار ما تترتب علی حصته لم یطالب بأجرة حصة الآخر۔
(٣) درر الحکام: (٢/٢٦٦) المادة: ٧٧٧
الودیعة أمانة بید المستودع بنائًا علیه إذا هلکت أو فقدت بدون صنع المستودع و تعدیه و تقصیره في الحفظ لایلزم الضمان فقط. إذا أو دعت باجرة لأجل الحفظ و هلکت بسبب ممکن التحرز کا السرقة تکون مضمونة… ص٢٦٨) لا أنه ذا أودع مالاً بالأجرة لأجل الحفظ ففي صورة هلاکه أو فقدانه بسبب ممکن التحرز منه کالسرقة یکون مضموناً علی المستودع، ولکن إذا هلکت بسبب غیر ممکن التحرز کالحریق الغالب فلایلزم الضمان.
ویظهر من هذا الفقرة أنه إذا اشترط المودع. وإن کانت الودیعة مال غیره. أجرة مقابل حفظ الودیعة للمستودع صح ذلک و لزم علی المودع عطاء تلک الأجرة و تکون من قبیل جارة الآدمي۔
…………………………………………… واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
© Copyright 2024, All Rights Reserved