- فتوی نمبر: 9-292
- تاریخ: 20 دسمبر 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
(١) غلہ منڈی میں زمیندار اپنا غلہ جس آڑھتی کے پاس لاتا ہے وہ آڑھتی مال کا ڈھیر لگا دیتا ہے اور بولی لگاتا ہے۔ بولی سے پہلے منڈی کے دوسرے آڑھتی بھی جمع ہو جاتے ہیں اور مال کو چیک کرتے ہیں کہ مال کس کوالٹی کا ہے۔ اس کے بعد بولی شروع ہوتی ہے۔ اگر منڈی کا کوئی آڑھتی اس مال پر آخری بولی بول دے (یعنی وہ خرید لے) تو جس آڑھتی کی دکان پر وہ مال آیا تھا وہ خریدنے والے آڑھتی کے نام کا بل بنا کر اسے بھیج دیتا ہے اور پھر وہ مال اٹھا لیتا ہے۔ اس خرید و فروخت میں بولی لگانے والا آڑھتی جس کے پاس زمیندار اپنا مال لے کر آیاتھا، کل سیل کا 5% کمیشن زمیندار سے وصول کرے گا مثلاً اگر بل ایک لاکھ کا بنا ہے تو اس میں سے 5000روپے کمیشن وصول کرے گا ۔
(٢) زمیندار کا مذکورہ آڑھتی خریدار آڑھتی سے کوئی کمیشن وصول نہیں کر سکتا۔
(٣) پیمنٹ کی ادائیگی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ زمیندار نے اپنی رقم کمیشن وصول کرنے والے آڑھتی سے ہی لینی ہے اور کمیشن لینے والا آڑھتی اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ ساری رقم زمیندار کو اپنے پاس سے نقد یا قسطوں میں ادا کرے۔ زمیندار کسی صورت میں بھی خریدار آڑھتی سے اپنی رقم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ اس نے کمیشن لینے والے آڑھتی سے ہی مطالبہ کرنا ہے چاہے کمیشن لینے والے آڑھتی کو خریدار آڑھتی سے رقم وصول ہو یا نہ ہو، نقد ملے یا بعد میں، زمیندار کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
(٤) زمیندار کو ادائیگی میں عام طور پر یہ صورت اختیار کی جاتی ہے کہ کچھ پیسے نقد دے دیے جاتے ہیں اور باقی آہستہ آہستہ دیتے رہتے ہیں۔ کوئی باقاعدہ مدت متعین نہیں ہوتی بس جب زمیندار مطالبہ کرتا ہے تو اسے دے دیتے ہیں۔ اگر زمیندار کو
فوری پیسوں کی ضرورت ہو تو نقد ادائیگی بھی کر دی جاتی ہے۔
1۔ کیا زمیندار سے کمیشن وصول کرنے کا مذکورہ بالا طریقہ کار شرعاً درست ہے ؟
2۔ کیا خریدار آڑھتی سے کمیشن نہ لینے کا اصول شرعاً درست ہے ؟
3۔ کیا زمیندار کا کمیشن وصول کرنے والے آڑھتی سے ہی اپنی رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے؟
4۔ کیا پیمنٹ کی ادائیگی کا مذکورہ طریقہ کار درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
١۔ آڑھتی کا زمیندار کا مال دوسرے آڑھتی کو بکوا کر زمیندار سے کمیشن لینے کا مذکورہ بالا طریقہ جائز ہے۔
٢۔ خریدار کا آڑھتی سے کمیشن نہ لینے کا اصول بھی شرعاً درست ہے۔
٣۔ زمیندار کا کمیشن وصول کرنے والے آڑھتی سے ہی اپنی رقم کا مطالبہ کرنا درست ہے کیونکہ یہ آڑھتی زمیندار کا سامان فروخت کرنے کا وکیل بالاجرةہے ( یعنی زمیندارسے کمیشن لے کر اس کا مال فروخت کرتا ہے ) اور وکیل کے ذمہ ہے کہ وہ خریدار سے بیچی گئی چیز کے پیسے وصول کرکے زمیندار کو ادا کرے ، البتہ آڑھتی اپنے جیب سے زمیندار کو پیسے دینے کا پابند نہیں ہے، اسی طرح اگر زمیندار کی اجازت سے ادھار سودا ہوا ہے تو مقررہ وقت سے پہلے آڑھتی زمیندار کو پیسے دینے کا پابند نہیں ہے ، لیکن اگر آڑھتی اپنی رضامندی سے زمیندار کو اپنے پاس سے پیسے دیدے اور خریدار سے وقتا فوقتا وصول کرے، تو یہ بھی جائز ہے۔
٤۔ زمیندار کو ادائیگی کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ درست ہے بشرطیکہ زمیندار کی ا س پر دلی رضامندی ہو، لیکن اگر سودا ادھار ہوا ہو تو پھر ادائیگی کے لیے کوئی وقت مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔
(١)الهدایة في شرح بدایة المبتدي: (٣/١٤٧)
قال: ”ومن أمر رجلاً ببیع عبده فباعه وأخذ بالثمن رهناً فضاع في یده أو أخذ به کفیلاً، فتوی المال علیه فلا ضمان علیه؛ لأن الوکیل أصیل في الحقوق، و قبض الثمن منها، و الکفالة توثق به، والارتهان وثیقة لجانب الاستیفاء فیملکهما.”
(٢) تبیین الحقائق:(٥/٦٧)
(والسمسار يجبر على التقاضي)؛ لأنه يبيع ويشتري للناس عادة بأجرة فجعل ذلك بمنزلة الإجارة الصحيحة بحكم العادة فيجب عليه التقاضي والاستيفاء.
(٣) الهدایة: (٣/٢٠٧)
والبياع والسمسار يجبران على التقاضي لأنهما يعملان بأجرة عادةً.
(٤) الهدایة: (٣/٣١) کتاب البیوع طبع المصباح)
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوماً… ولا بد أن يكون الأجل معلوما لأن
الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد فهذا يطالبه به في قريب المدة وهذايسلمه في بعيدها.
(٥) مجلة 🙁 مادہ:١٥٠٢)
لایجبر الوکیل بالبیع علی أداء ثمن المال الذي باعه من ماله اذا لم یأخذ ثمنه من المشتري.
…………………………………………. فقط والله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved