• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ضرورت کی وجہ سے مصر (شہر ) کی دوسری تعریف اختیار کرنا

استفتاء

ایک گاؤں جس کی مجموعی آبادی تقریباً 4 ہزار افراد سے  متجاوز ہے لیکن وہ آبادی متفرق ہے جس کی تفصیل یہ ہے : ایک آبادی سے دوسری آبادی تک یعنی ایک گھر سے دوسرے گھر تک فاصلہ بھی ہے بعض  جگہوں  پر ایک گھر سے دوسرے گھر تک درمیان قبرستان، کھیت، جنگلات وغیرہ بھی آتے ہیں۔ لیکن بعض جگہوں پر بالکل آبادی ملی ہوئی ہے۔

اس گاؤں ( چندراٹ ) کی ایک مسجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم ہے جو زلزلہ سے متاثر ہو گئی  تھی اور حال میں ہی  اس کی تعمیر مکمل کرائی گئی ہے۔ اس گاؤں کی صورتحال یوں ہے اس گاؤں کے دونوں اطراف میں دو جامع مساجد واقع ہیں اور ان جامع مساجد کا فاصلہ اس نئی تعمیر ہونے والی ( ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) مسجد سے تقریباً تین، چار کلو میٹر تک ہے۔ جامع مسجد کے دور ہونے کی وجہ سے  بہت سے لوگ جمعہ کی ادائیگی نہیں کرسکتے۔ اس گاؤں میں کسی دوسری جگہ نماز جمعہ بھی ادا نہیں ہوتی۔ اور اس  مسجد  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قریب ہی کچھ فاصلے پر دو دکانیں ہیں جن  میں سے اکثر ضروریات اشیاء میسر ہیں، ماسوائے ڈاکٹر کی ضرورت، کپڑے کی دکان، گوشت، ڈاکخانہ، تھانہ کے۔ لیکن گاؤں میں مختلف جگہوں پر اور بھی دکانیں ہیں جن کو  اگر ملایا جائے تو ایک بازار کی شکل بن جاتی ہے۔

اور اس گاؤں کی اس مسجد ابو بکر صدیق  کے قریب ہی ایک عید گاہ ہے جہاں تقریباً عرصہ 40 سال سے نماز عید ہو رہی ہے۔

اب حضرت مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جمعہ کی نماز کا اس مسجد میں پڑھنا درست ہے کہ نہیں؟

یاد رہے کہ اس مسجد میں تین ، چار جمعہ کی نمازیں ہوگئی ہیں۔ اب یہی صورتحال مختلف دارالافتاء کے پاس بھیجی گئی ، تو ان میں سے بعض مفتیان کرام نے نماز جمعہ کی ادائیگی کے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔

دارالعلوم فاروقیہ راولپنڈی والوں نے عدم جواز کا فتویٰ دیا۔ بحوالہ کما فی کفایت المفتی نقلاً فتاویٰ محمودیہ، 175/ 8 جس کی کاپی لف  کر دی گئی ہے۔

دارالعلوم منظور الاسلامیہ لاہور نے جواز کا فتویٰ دیا۔ بحوالہ عزیز الفتاوی میں سے ۳، ۴ ہزار کی آبادی میں جمعہ کی نماز  فرض ہے۔

بعض دوسرے مفتیان کرام نے فتاویٰ رشیدیہ  اور بہشتی زیور کو دیکھ کر فتویٰ دیا کہ نماز جمعہ فرض ہے اور جواز کا فتویٰ دیا۔

بعض دوسرے مفتیان کرام  نے آپ کے مسائل  اور ان کا حل  سے حوالہ دے کر عدم جواز کا فتویٰ دیا۔ حضرت گذارش  یہ ہے کہ جن حضرات نے جواز کا فتویٰ دیا  ان کے کہنے پر بعض لوگوں نے جمعہ شروع کرا دیا اور بعد میں عدم جواز کا فتویٰ آیا تو اختلاف  اور انتشار بھی پیدا ہوگیا لوگوں کے درمیان  عید اور جمعہ  کے نہ شروع کرنے میں ایک فتنہ اور پنج وقت نماز کے چھوڑنے کا  خطرہ بھی لاحق ہے۔

اس صورتحال میں ہم کس کے فتویٰ پر عمل کریں اور کس کے فتویٰ پر عمل نہ کریں؟  اس کا جواب بھی تحریر کریں اور باقی فتاوی جات کا جواب بھی تحریر قرآن وسنت کی روشنی میں فرما کر ہماری عوام کو فتنہ و فساد سے بچائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حنفیہ کے نزدیک جو مختار قول ہے اس کے مطابق مذکورہ آبادی  گاؤں ہے، قصبہ یا شہر نہیں ہے اور اس میں جمعہ درست نہیں ہے لیکن موجودہ دور میں حالات بہت کچھ تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس لیے بعض حنفیہ کی اس تعریف  کو لے سکتے ہیں کہ وہ آبادی  جس کی سب سے بڑی مسجد میں آبادی کے تمام لوگ نہ آسکیں۔ اگر یہ تعریف مذکورہ آبادی پر منطبق ہوتی ہے تو جمعہ پڑھنے کی گنجائش ہے جیسا کہ کفایت المفتی میں بھی یہی تحریر ہے: ” قریہ کبیرہ جس پر مصر کی کوئی تعریف بھی صادق آجائے مثلاً مالا یسع اکبر مساجدہ اھلہ المکلفین بھا اس میں اقامت جمعہ جائز ہے”۔( کفایت المفتی، 241/ 3 )

ایک بات عجیب ہے کہ آپ لوگ عید گزشتہ چالیس سال سے پڑھ رہے ہیں اور گاؤں میں عید گاہ بھی ہے لیکن جمعہ ابھی ایک دو مہینے سے ہوا ہے حالانکہ عید کا اور جمعہ کا ایک ہی حکم ہے۔ ۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved