• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زوجہ مجنون کے لیے فسخ نکاح کا طریقہ

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی کی شادی کو سات سال ہو گئے ہیں لیکن میرا داماد تقریبا ساڑھے چار سال سے بستر پر ہے جو کہ دماغی مسائل کا شکار ہے نہ وہ کوئی ٹھوس چیز کھا سکتا ہے، نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ حقوق زوجیت ادا کر سکتا ہے، ڈاکٹر بھی کوئی امید نہیں دلاتے اس وجہ سے ہم بیٹی کو گھر لے آئے ہیں، اس کا پانچ سال کا بیٹا بھی ہے، اس کی شادی خالہ کے گھر ہوئی ہے، خالہ نہیں چاہتی کہ وہ یہاں سے جائے، میری بیٹی کی عمر ابھی 27 سال ہے، ان حالات میں وہ دوبارہ اپنے شوہر کے پاس نہیں جانا چاہتی، کیا ہم عدالت کے ذریعے اپنی بیٹی کا نکاح فسخ کروا سکتے ہیں، اس بارے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

(1) شوہر کی دماغی حالت خراب ہونے کے بعد بیوی نے کبھی زبان سے کہا ہے کہ یہ جیسا بھی ہے میں اس کے ساتھ گزارا کر لوں گی؟ یا اس کے ساتھ اپنی مرضی سے کبھی ہمبستری کی ہے ؟ (2) جتنا عرصہ شوہر بیمار رہا ہے گھر کا خرچہ کون دیتا تھا؟

جواب وضاحت:

(1) شوہر کے بیمار ہونے کے بعد کبھی بھی میں نے زبان سے نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ گزارا کر لوں گی، البتہ دو مرتبہ میں نے خود اپنی مرضی سے ان سے ہمبستری کی، ان کی رضامندی کا مجھے علم نہیں کیونکہ ان کی حالت ایسی تھی کہ وہ خود ہمبستری نہیں کر سکتے تھے۔

(2) شوہر کا کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، کبھی شوہر کا بھائی خرچہ دیتا تھا، کبھی میری ساس اور کبھی میری والدہ خرچہ دیتی تھی۔ میں ان حالات میں ان کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی میں نکاح فسخ کروانا چاہتی ہوں۔

لڑکے کے بھائی کا بیان: میں تصدیق کرتا ہوں کہ میرا بھائی دماغی امراض کا شکار ہے اور جو کچھ سوال میں لکھا ہے وہ درست ہے۔ اگر وہ لوگ علیحدگی چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔( رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کے جنون (پاگل پن) یا دماغی مریض ہونے کی بنیاد پر فسخ نکاح کے لئے دیگر شرائط کے علاوہ یہ بھی شرط ہے کہ شوہر کو جنون (پاگل پن) یا دماغی مرض لاحق ہونے کے بعد بیوی نے اپنی مرضی سے شوہر سے ہمبستری نہ کی ہو، مذکورہ صورت میں چونکہ بیوی نے شوہر کے دماغی مریض ہونے کے بعد اپنی مرضی سے اس سے ہمبستری کی ہے لہذا مذکورہ صورت میں جنون (پاگل پن) یا دماغی مریض ہونے کی بنیاد پر  نکاح فسخ نہیں ہو سکتا۔

البتہ خرچہ نہ دینے کی بنیاد پر آپ عدالت کے ذریعے اپنی بیٹی کا نکاح فسخ کروا سکتے ہیں، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ

آپ کی بیٹی عدالت  میں درخواست پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ فلاں شخص اس کا شوہر ہے، اور وہ مجنون (پاگل) یا دماغی مریض ہے اور نفقہ (خرچہ) پر قادر نہیں ہے اور میں نے اپنا نفقہ (خرچہ) معاف بھی نہیں کیا، اور آپ کی بیٹی ان سب باتوں پر قسم بھی کھائے، اس کے بعد جج شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دے ، اگر اس مدت میں بھی شوہر نفقہ (خرچہ) پر قادر نہ ہو سکے، تو حاکم تفریق کردے، یہ فیصلہ طلاق رجعی کے حکم میں ہوگا، اگر عدت کے اندر شوہر کی  نفقہ (خرچہ) پر قدرت ثابت ہو جائے تو مجنون کا ولی رجوع کر سکتا ہے۔ اور اگر عدت کے اندر شوہر کی نفقہ (خرچہ)پر قدرت ثابت نہ ہو تو عدت گزرنے کے بعد عورت آگے نکاح کر سکتی ہے۔

جج ایک ماہ کی مہلت اور تفریق کا حکم  مجنون  یا دماغی مریض کے ولی (سرپرست) کو عدالت میں بلا کر سنائے، اگر اس کا ولی (سرپرست) عدالت میں حاضر نہ ہو تو جج شوہر کی طرف سے کوئی وکیل مقرر کر کے اس کو ایک ماہ کی مہلت اور تفریق کا حکم سنائے۔

حیلہ ناجزہ (54) میں ہے:

(د) زوجہ مجنون کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جنون موجب للفسخ کا علم ہو جانے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعی کا موقع نہ دیا ہو۔

نیز حیلہ ناجزہ (57) میں ہے:

 فائدہ: زوجہ مجنون کے لئے جو شرائط اوپر مذکور ہوئے ہیں اگر وہ شرائط کسی جگہ موجود نہ ہوں تو بنا بر جنون تفریق نہیں ہو سکتی لیکن اگر یہ مجنون کوئی ذریعہ آمدنی نہ رکھتا ہو اور زوجہ کے لیے اپنے نفقہ کی کوئی دوسری سبیل بھی نہیں تو ایسی صورت میں مفتی کیلئے عورت کے اضطرار کی پوری تحقیق ہو جانے پر چند علماء سے مشورہ کے بعد اس فتوی کی گنجائش ہے کہ مذہب مالکیہ کی بنا پر عدم نفقہ کی وجہ سے قاضی یا اس کا قائم مقام ان دونوں میں تفریق کر دے اور یہ تفریق طلاق رجعی کے حکم میں ہو گی۔

كما هو المصرح فى الرواية الثانية من فتوى العلامة سعيد بن صديق الفلاتى من قوله بل لو كان حاضرا و عدمت النفقة ….الخ و التصريح بكونه طلاقا رجعيا فى الرواية الرابعة عشر من فتوى العلامة الصالح حيث قال ’’ان كل طلاق اوقعه الحاكم فهو بائن الا طلاق المولى و المعسر و سواء اوقعه الحاكم بالفعل او جماعة المسلمين او امراها به‘‘.انتهى.

نیز حیلہ ناجزہ (128) میں ہے:

الرواية الثانية:

و مثل المفقود من علم موضعه و شكت زوجته عدم النفقة يرسل اليه الحاكم اما ان تحضر او ترسل النفقة او تطلقها و الا طلقها الحاكم، بل لو كان حاضرا و عدمت النفقة.

احسن الفتاوی (5/423) میں ہے:

سوال: شریعت مطہرہ کا حکم اس بارہ میں کیا ہے کہ ایک شخص کچھ جنون اور دماغی خلل کی وجہ سے اپنی بیوی کو سنبھالنے اور خرچ وغیرہ برداشت کرنے پر قادر نہیں اور نہ ہی بیوی کے مصارف کا اور کوئی انتظام ہو سکتا ہے بیوی اس حالت میں اس کے نکاح میں رہنے پر راضی نہیں، اور یہ شخص جنون کی وجہ سے طلاق دینے پر قادر نہیں کہ شرعا اس کی طلاق غیر معتبر ہے، اور جنون بھی اس حد تک پہنچا ہوا نہیں کہ عورت کو خیار فسخ مل سکے، یعنی شوہر سے تکلیف پہنچنے یا قتل وغیرہ کا خوف نہیں تو اس صورت میں بیوی کی نجات کی شرعا کیا صورت ہے؟ بینوا توجروا

 الجواب: ایسے حالات میں مذہب حنفی میں کوئی صورت ممکن نہیں لہذا بوقت اضطرار مذہب مالکی پر فتوی دیا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عورت حاکم مسلم کے پاس درخواست پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ فلاں شخص اس کا شوہر ہے اور وہ مجنون ہے، اور نفقہ پر قادر نہیں اور نہ ہی اس کے نفقہ کا کوئی کفیل ہے اور اس نے نفقہ معاف بھی نہیں کیا، اور نہ ہی اسے نکاح سے قبل اس کی ناداری کا علم تھا، یا ناداری کا علم تو تھا مگر کسی نے نفقہ کی کفالت قبول کی تھی اور اب اس نے انکار کر دیا ہے، نفقہ سے متعلق ان سب باتوں پر قسم بھی کھائے، اس پر حاکم شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دے، اگر اس مدت میں بھی نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو سکا، تو حاکم تفریق کردے، یہ فیصلہ طلاق رجعی کے حکم میں ہوگا اگر عدت کے نفقہ پر قدرت ثابت ہو جائے تو مجنون کا ولی رجوع کر سکتا ہے، والتفصیل فی الحیلة الناجزة لحکیم الامة قدس سره

تنبیہات:

(1) مجنون کے ساتھ زوجیت پر شہادت کا لزوم کہیں نظر سے نہیں گزرا مگر چونکہ مجنون کا وجود کالعدم ہے اس لئے قیاسا علی الغائب یہ شرط ضروری معلوم ہوتی ہے۔ و ھو الاحوط، ولی مجنون کا اقرار زوجیت ا س لئے معتبر نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں مجنون کا ضرر ہے۔

(2) حیلہ ناجزہ میں اس صورت میں شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دینے کی تصریح نہیں مگر چونکہ یہ اعسار کی صورت ہے جس میں مالکیہ کے ہاں تأجیل شہر کی صراحت ہے اس لئے شوہر کو ایک ماہ کی مہلت دینا چاہیے، اس میں بھی نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو سکا تو تفریق کی جائے، البتہ عبارات مالکیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تأجیل صحت قضاء کے لئے شرط نہیں۔

(3) حاکم تأجیل شہر اور اس کے بعد فسخ نکاح کا حکم مجنون کے ولی کو سنائے، اگر اس کا کوئی ولی نہ ہو تو حاکم مجنون کی طرف سے کوئی وکیل مقرر کر کے اس کو حکم سنائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

تنبیہ: نفقہ (خرچہ) نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح کا حکم فقہ مالکی سے لیا گیا ہے، اور مالکیہ کے ایک قول کے مطابق خود عورت کا حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قادر نہ  ہونا اور میاں بیوی میں سے کسی کے عزیز و اقارب کا بیوی کا نفقہ برداشت کرنے پر تیار نہ ہونا ،  فسخ نکاح کے لیے شرط نہیں ہے۔

چنانچہ مواھب الجلیل شرح مختصر الخلیل (450/5) میں ہے:

(مسألة) إذا قامت المرأة بالطلاق لعدم النفقة في غيبة الزوج فتطوع بها متطوع فذكر المشذالي في حاشية المدونة في كتاب الإجارة في ذلك قولين ونصه في شرح قول المدونة، ولو تطوع رجل بأدائها لم يفسخ.

(قلت) ويؤخذ من هنا ما نص عليه أبو بكر بن عبد الرحمن في مسألة اختلف فيها مع ابن الكاتب رأينا هنا في حاشية نسخة من نوازل ابن رشد ونصها: سئل عن رجل غاب عن زوجته فقامت المرأة وادعت أنه لم يترك لها زوجها شيئا ورفعت أمرها إلى السلطان وأرادت الفراق إذا لم يترك لها زوجها نفقة ثم إن رجلا من أقارب الزوج أو أجنبيا عنه قال لها: أنا أؤدي عنه النفقة، ولا سبيل لك إلى فراقه، فقال ابن الكاتب: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبد الرحمن لا مقال لها؛ لأن عدم النفقة الذي أوجب لها القيام قد انتفى.

(قلت) وقد أشار ابن المناصف إلى هذا فقال ما حاصله: قيام الزوجة في غيبة زوجها على وجهين: أحدهما لترجع بما تنفق عليه وفائدته قبول قولها من حين الدفع. الوجه الثاني لتطلق نفسها لعدم الإنفاق، فإذا أثبتت الزوجية والمغيب ولم يترك لها شيئا ولم يخلف ما يعدى فيه ولم يتطوع بالنفقة عنه ودعت إلى الطلاق إلى آخره، فظاهره أن التطوع بإجراء النفقة يسقط مقالها كقول ابن عبد الرحمن، وهو الذي تقتضيه المدونة في النكاح الثاني في قوله: إلا أن يتطوع الزوج بالنفقة، انتهى بلفظه.

نیز حیلہ ناجزہ (ص:150 طبع دارالاشاعت) میں ہے:

الرواية الثالثة و العشرون:

و اما  المتعنت الممتنع عن الانفاق ففي مجموع الامير ما نصه: ان منعها نفقة الحال فلها القيام ، فان لم يثبت عسره انفق او طلق و الا طلق عليه ، قال محشيه قوله: و الا طلق اي طلق عليه الحاكم من غير تلوم، الي ان قال: و ان تطوع بالنفقة قريب او أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبد الرحمن لا مقال لها؛ لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتفى، وهو الذي تقتضيه المدونة كما قال ابن المناصف انظر الحطاب، انتهي.

لیکن  "حیلہ ناجزہ” میں یہ شرط مذکور ہے

چنانچہ حیلہ ناجزہ (ص:72 طبع دارالاشاعت) میں ہے:

زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے) کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کر لے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سخت مجبوری کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو الخ "

نیز مفتی رشید احمد صاحب ؒ نے بھی اپنے فتوے میں حیلہ ناجزہ سے اس شرط کو لیا ہے، 

چنانچہ احسن الفتاوی (5/423) میں ہے:

الجواب: ایسے حالات میں مذہب حنفی میں کوئی صورت ممکن نہیں لہذا بوقت اضطرار مذہب مالکی پر فتوی دیا جاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عورت حاکم مسلم کے پاس درخواست پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ فلاں شخص اس کا شوہر ہے اور وہ مجنون ہے، اور نفقہ پر قادر نہیں اور نہ ہی اس کے نفقہ کا کوئی کفیل ہے اور اس نے نفقہ معاف بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔والتفصیل فی الحیلة الناجزة لحکیم الامة قدس سره

اور ’’حیلہ ناجزہ‘‘ میں اس شرط کے لگانے اور مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے۔

چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ (72) میں ہے:

و هذا الحكم عندنا لا يختص بخشية الزنا و إفلاس الزوجة لكن لم نأخذ مذهبهم على الإطلاق بل أخذناه حيث وجدت الضرورة المسوغة للخروج عن المذهب.

لیکن ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق لیا ہے کیونکہ اب عدالتیں اپنے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کی حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت یا میاں بیوی میں سے کسی کے عزیز و اقارب کے نفقہ برداشت کرنے کو) ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں اگر خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو یا  شوہر کے عزیز و اقارب نفقہ (خرچہ)کی ذمہ داری لے لیں تو پھر بھی جج نکاح فسخ کر سکتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved